کیا قرآن کے مطابق عیسائی اور یہودی بھی مسلمان ہیں؟

کیا عیسائی یہودی سب مسلمان ہیں؟ ایک آیت کی تفسیر

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میرا ایک پڑوسی کہتا ہے کہ عیسائی، یہودی سب مسلمان ہیں اور کہتا ہے کہ یہ قرآن کی آیت میں آیا ہے۔ اس نے آیت تو نہیں بتائی، مگر مجھے اس آیت

(اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِــٴُـوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ)

کی تفسیر بتادیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

آپ کے پڑوسی کا عیسائیوں اور یہودیوں کو مسلمان کہنا بالکل غلط ہے، اس لیے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت اورہمارے نبی حضرت سیدنامحمدمصطفی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی نبوت اورقرآن پاک کواللہ تعالی کی سچی کتاب اورمزیدجوکچھ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم اللہ تعالی کی طرف سے لائے (یعنی ضروریات دین) ان سب کومانے بغیرکوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔

تفسیر بیضاوی میں ہے

و اما فی الشرع فالتصدیق بما علم بالضرورۃ انہ من دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کالتوحید و النبوۃ و البعث و الجزاء

ترجمہ: اور بہرحال شرع میں ایمان سے مراد، ان باتوں کی تصدیق کرنا ہے جن کا دینِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے ہونا ضروری طور پر معلوم ہو، جیسا کہ توحید، نبوت، دوبارہ اٹھنا، اور جزا (یعنی ثواب و عقاب)۔(تفسیر البیضاوی، صفحہ 132، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

شرح العقائد النسفیۃ میں ہے

الایمان فی الشرع ھو التصدیق بما جاء بہ من عند اللہ تعالیٰ ای تصدیق النبی علیہ السلام بالقلب فی جمیع ما علم بالضرورۃ مجیئہ بہ من عند اللہ تعالیٰ اجمالاً

ترجمہ: شرع میں ایمان سے مراد اس کی تصدیق کرنا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے پاس سے لائے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تمام باتوں میں دل سے اجمالاً تصدیق کرنا جن کا اللہ تعالیٰ کی جانب سے آنا ضروری طور پر معلوم ہو۔ (شرح العقائد النسفیۃ، صفحہ 276، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

سوال میں مذکورآیت مبارکہ کی تشریح:

(1) آپ نے جوآیت مبارکہ ذکر کی اس میں جوشروع میں"اٰمَنُوْا"ذکرہے، اس سے مرادوہ لوگ ہیں، جو صرف زبان سے اسلام لائے، دل سے اسلام نہیں لائے یعنی منافقین۔ تفسیر نسفی میں ہے

{اِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا}بألسنتهم وهم المنافقون 

 ترجمہ: بے شک جوایمان لائے (فقط) اپنی زبانوں کے ساتھ اوروہ منافقین ہیں۔ (تفسیر نسفی، ج 01، ص 462، دار الکلم الطیب، بیروت)

تو یوں اس میں درج ذیل چارگروہوں کاذکرہے:

(a)منافقین(b)یہودی(c)صابی(d)عیسائی۔

ان سب کاذکر کر کے فرمایا کہ جوان میں سے اللہ پر ایمان لائے۔۔ الخ

اس سے واضح ہواکہ ان کاابھی اللہ تعالی پرایمان نہیں ہے، تبھی توذکر فرمایا کہ: "ان میں سے جواللہ پرایمان لائے۔" پس جب ان کا ابھی اللہ تعالی پر ایمان نہیں تو یہ مسلمان کیسے ہوں گے؟

تفسیر نور العرفان میں ہے ”اس سے معلوم ہوا کہ عیسائی، یہودی، صابی وغیرہ مومن نہیں، اگرچہ تمام اگلی آسمانی کتابوں کو مانیں ورنہ آگے "من اٰمن" نہ فرمایا جاتا۔“ (تفسیر نور العرفان، صفحہ189، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

اور ان کااللہ تعالی پر ایمان کیسے نہیں ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

 (A)اللہ تعالی پرایمان لانے میں ایک تویہ شامل ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت کوتسلیم کیاجائے اور اسے وحدہ لاشریک مانا جائے، اور یہودیوں اورعیسائیوں کا اس پر ایمان نہیں ہے، چنانچہ

(الف) عیسائیوں میں بعض صرف حضرت سیدناعیسی علی نبیناو علیہ الصلوۃ و السلام کو ہی خدا مانتے ہیں ( معاذاللہ) اوریہ کفرہے جیسا کہ آپ نے جوآیت ذکرکی، اس سے دوآیتیں چھوڑکرتیسری آیت میں ہے

(لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-)

ترجمہ کنز الایمان: بے شک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ وہی مسیح مریم کا بیٹا ہے۔ (سورۃ المائدۃ، پ 06، آیت 72)

تفسیرکبیرمیں ہے

شرع هاهنا في الكلام مع النصارى فحكى عن فريق منهم أنهم قالوا:(اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-) و هذا هو قول اليعقوبية لأنهم يقولون: إن مريم ولدت إلها، ولعل معنى هذا المذهب أنهم يقولون: إن الله تعالى حل في ذات عيسى واتحد بذات عيسى

ترجمہ:یہاں سے عیسائیوں کے ساتھ کلام شروع فرمایاتوان کے ایک فرقےکے موقف کی حکایت کی کہ انہوں نے کہا: اللہ وہی مسیح مریم کا بیٹا ہے۔ اور یہی یعقوبیہ فرقے کاقول ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ مریم نے خدا کو جنم دیا، اور شاید اس مذہب کامطلب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: اللہ تعالی نے حضرت عیسی علی نبیناو علیہ الصلوۃ و السلام کی ذات میں حلول کیا اوروہ حضرت عیسی علی نبیناوعلیہ الصلوۃ و السلام کی ذات کے ساتھ متحد ہوگیا (العیاذ باللّٰہ تعالی)۔ (تفسیر کبیر، ج 12، ص 408، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

(ب) اور بعض تین خدامانتے ہیں، ان میں سے ایک حضرت عیسی اورایک ان کی والدہ حضرت مریم ہیں (معاذاللہ) اور یہ بھی کفر ہے، اس سے اگلی آیت میں ہے

(لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُـوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍۘ- وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-)

ترجمہ کنزالایمان: بے شک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے اور خدا تو نہیں مگر ایک خدا۔ (سورۃ المائدۃ، پ 06، آیت 73)

تفسیرجلالین میں ہے

{ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُـوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ} آلهة{ثَلٰثَة} أي أحدها والآخران عيسى وأمه و هم فرقة من النصارى

ترجمہ: بے شک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے، اور بقیہ دو حضرت عیسی (علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام)اوران کی والدہ ہیں۔ اور یہ قول عیسائیوں کے ایک فرقے کا ہے۔ (تفسیر جلالین، ص 151، دار الحدیث، القاھرۃ)

(ج) اور بعض حضرت عیسی علی نبیناو علیہ الصلوۃ و السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا کہتے ہیں (معاذاللہ) اور یہ بھی کفرہے۔

(د) اسی طرح یہودی حضرت عزیرعلی نبیناو علیہ الصلوۃ و السلام کو اللہ تعالی کابیٹاکہتے ہیں(معاذاللہ) اور یہ بھی کفر ہے۔

قرآن پاک میں ہے

(وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِؕ- ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْۚ- یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُؕ- قٰتَلَهُمُ اللّٰهُۚ- اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ)

ترجمہ کنز الایمان: اور یہودی بولے عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی بولے مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ باتیں وہ اپنے منہ سے بکتے ہیں اگلے کافرو ں کی سی بات بناتے ہیں اللہ انہیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔ (سورۃ التوبۃ، پ 10، آیت 30)

تفسیرخازن میں ہے

و اصناف النصاری اربعۃ:الیعقوبیۃ و الملکانیۃ و النسطوریۃ و المرقوسیۃ،فاما الیعقوبیۃ و المکانیۃ فقالوافی عیسی انہ اللہ و قالت النسطوریۃ: انہ ابن اللہ وقالت المرقوسیۃ ثالث ثلاثۃ

ترجمہ: اور عیسائیوں کے چارفرقے ہیں: یعقوبیہ، ملکانیہ، نسطوریہ اورمرقوسیہ۔ پس یعقوبیہ اورملکانیہ نے حضرت عیسی (علی نبیناو علیہ الصلوۃ و السلام) کے بارے میں کہا:وہ خداہیں اور نسطوریہ نے کہا: اللہ تعالی کے بیٹے ہیں اورمرقوسیہ نے کہاتین میں سے تیسرے ہیں۔ (العیاذ باللّٰہ تعالی) (تفسیرخازن، ج 01، ص 451،دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

پس جب ان کااللہ تعالی کی وحدانیت اوراس کے وحدہ لاشریک ہونے پرایمان نہیں توان لوگوں کااللہ تعالی پرایمان نہیں ہے اورجب ان کااللہ تعالی پرایمان نہیں تویہ لوگ مسلمان بھی نہیں ہوسکتے۔

نوٹ: حضرت عزیرعلی نبیناوعلیہ الصلوۃ و السلام کواللہ تعالی کابیٹاکہنے کاقول سارے یہودکرتے تھے یابعض، اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ اورپھریہ پہلے دورکامعاملہ ہے، اب اگریہودنے ایساکہناچھوڑدیاہے، تواس سے قرآن پاک کی خبرپرکوئی حرف نہیں آسکتا۔(اس کے متعلق تفصیل کتب تفسرمیں اورخاص طور پر تفسیر کبیر، ج 16، ص 28، مطبوعہ: بیروت، پر دیکھی جاسکتی ہے۔)

اور جو یہودی حضرت عزیرعلی نبیناو علیہ الصلوۃ و السلام کو اللہ تعالی کا بیٹانہیں کہتے، توان کااللہ تعالی پرایمان نہ ہونا، اس وجہ سے ہوگا کہ وہ اللہ تعالی کے ہرہرکلام کی تصدیق نہیں کرتے، جس کی تفصیل نیچے بیان ہوگی۔

(B) اور اللہ تعالی پر ایمان لانے میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی کے ہرہر کلام کی سچےدل سے تصدیق کرے، اس نے جوباتیں ماننے کافرمایا، ان کوسچے دل سے مانے۔

اللہ تعالی نے قرآن پاک کوماننے کافرمایا، نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کو آخری نبی ماننے کافرمایا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم جوکچھ اللہ تعالی کی طرف سے لائے (یعنی ضروریات دین) اس سب کوماننے کا فرمایا، توجب تک ان سب پرایمان نہیں ہوگا، اس وقت تک اللہ تعالی پر ایمان درست نہیں ہوسکتا۔

اور ان چاروں گروہوں کا ان باتوں پر ایمان نہیں، لہذا ان کا اللہ تعالی پر ایمان نہیں اورجب اللہ تعالی پر ایمان نہیں تو یہ مسلمان بھی نہیں ہوسکتے۔

فتاویٰ رضویہ میں ہے "اللہ پر ایمان یہ نہیں کہ لفظ اللہ مان لیا بلکہ ایمان تصدیق کا نام ہے، جو اللہ عزوجل کے ہر ہر کلام کی تصدیق قطعی سچے دل سے کرتا ہو وہ اللہ عزوجل پر ایمان رکھتا ہے اور جو اس کے کسی کلام میں شبہ بھی لائے اسے ہرگز اللہ پر ایمان نہیں کہ اس کی سب باتوں کی تصدیق نہیں کرتا۔۔۔ اصل یہ ہے کہ ایمان باللہ میں جملہ ضروریات دین پر ایمان داخل ہے کہ ان میں سے کسی بات کی تکذیب رب کی تکذیب ہے اور رب کی تکذیب رب کے ساتھ کفر ہے، پھر رب پر ایمان کہاں۔۔۔۔ ایمان باللہ میں سب ضروریات کتابوں، رسولوں، فرشتوں، قیامت وغیرہا پر ایمان لاناداخل ہے۔" (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 699 تا 701، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

(C)یہودی، حضرت عیسی اورہمارے نبی حضرت محمدصلی اللہ تعالی علیہما و سلم کا انکار کرتے ہیں اورعیسائی، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کا انکار کرتے ہیں، اور جو کسی ایک رسول کا بھی انکار کرے وہ پکا کافرہے اور جہنمی ہے۔

قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے:

(اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍۙ- وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًاۙ(۱۵۰) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّاۚ- وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۱۵۱))

ترجمہ کنزالایمان: وہ جو اللہ اوراس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ سے اس کے رسولوں کو جدا کردیں اور کہتے ہیں ہم کسی پر ایمان لائے اور کسی کے منکر ہوئے اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکال لیں۔ یہی ہیں ٹھیک ٹھیک کافراور ہم نے کافروں کے لیے ذلّت کا عذاب تیار کررکھا ہے۔ (سورۃ النسآء، پ 06، آیات 150، 151)

(2) اسی آیت مبارکہ میں اعمال صالحہ کی شرط بھی ہے ۔اوراعمال صالحہ اس دورمیں صرف وہی ہیں جوہمارے آخری نبی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی شریعت ہے کہ پچھلی تمام شریعتیں منسوخ ہوچکیں۔ تو اس شریعت کے اعمال صالحہ بجالانے کے لیے پہلے اس شریعت کوتسلیم کرنا ضروری ہے، اس شریعت کولانے والے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کواللہ تعالی کانبی و رسول تسلیم کرناضروری ہے، اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم پر جو کتاب مبین نازل ہوئی جس میں عقائداور دوسرے شرعی احکام ہیں، اس کومانناضروری ہے۔

اللہ تعالی قرآن پاک میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف ذکرکرکے فرماتاہے:

(فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ- اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(157))

ترجمہ: تو وہ جو اس نبی امی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا تووہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (سورۃ الاعراف، پ 09، آیت 157)

(3) آپ نے جوآیت مبارکہ ذکرکی اس سے پچھلی آیت مبارکہ میں ہے

(قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-)

ترجمہ: تم فرمادو اے کتابیو تم کسی چیزپر بھی نہیں ہو جب تک نہ قائم کرو توریت اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا۔ (سورۃ المائدۃ، پ 06، آیت 68)

اس میں جوآخرمیں فرمایاکہ "جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا"، اس سے مرادقرآن پاک ہے۔

اور شروع میں جوفرمایاکہ "تم کسی چیزپربھی نہیں ہو" تو اس کا مطلب ہے کہ تمہارا دین اتناباطل ہے کہ وہ کچھ کہنے کے بھی قابل نہیں ہے۔

اور قائم کرنے کا مطلب: ان کی باتوں پرایمان لانا اور عمل کرنا ہے۔

اب آیت مبارکہ کے اس حصے کامطلب یہ ہوگاکہ "اے کتابیو! (یہودیو، عیسائیو) جب تک تم توریت ،انجیل اور قرآن کی باتوں پر عمل نہ کرو اس وقت تک تمہارا  دین مقبول نہیں ہے۔"

اور توریت و انجیل میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت کا ذکر موجود ہے۔

قرآن پاک میں ہے

(اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ)

ترجمہ کنز الایمان: وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں۔(سورۃ الاعراف، پارہ 09، آیت 157(

صحیح بخاری میں ہے

عن عطاء بن يسار، قال: لقيت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضي اللہ عنهما، قلت: أخبرني عن صفة رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في التوراة۔قال: " أجل، واللہ إنه لموصوف في التوراة ببعض صفته في القرآن:{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(45)} [الأحزاب: 45]، و حرزا للأميين، أنت عبدي و رسولي

 ترجمہ: حضرت عطا بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرمایا کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا، تو میں نے توریت میں (مذکور) حضور علیہ السلام کے اوصاف کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تورات میں بعض ایسی ہی صفات کے ساتھ موصوف ہیں جو قرآن پاک میں ہیں "اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا" اور بے پڑھوں کے لیے ڈھال، تو میرا بندہ ہے اور تو میرا رسول ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب کراھیۃ السخب فی السوق، حدیث نمبر: 2125، ج 03، ص 66، دار طوق النجاۃ(

اورقرآن کی باتوں میں سے ایک بات ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پرایمان لانابھی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے

(مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-)

ترجمہ کنزالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں۔ (سورۃ الفتح، پ 26، آیت 29)

تفسیر نسفی میں ہے

{ قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ} على دين يعتد به حتى يسمى شيئاً لبطلانه { حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-} يعني القرآن

 ترجمہ: تم فرمادو اے کتابیو! تم کسی چیز پر بھی نہیں ہو یعنی کسی ایسے دین پر نہیں ہو جوکہ قابل اعتبار اور قابل شمار ہو کہ اسے کوئی چیز کہا جاسکے کیونکہ جودین تم نے اپنا رکھا ہے وہ باطل ہے لہذاوہ کچھ کہنے کے بھی قابل نہیں، جب تک کہ تم توریت، انجیل اور جوکچھ تمہاری طرف اتارا گیا یعنی قرآن، اس کوقائم نہ کرو۔ (تفسیر نسفی، ج 01، ص 462، دار الکلم الطیب، بیروت)

تفسیرجلالین میں ہے

{قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ} من الدين معتد به{حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-}بأن تعملوا بما فيه ومنه الإيمان بي

ترجمہ: تم فرمادو اے کتابیو! تم کسی چیزپر بھی نہیں ہو یعنی کسی ایسے دین پرنہیں ہوجوکہ قابل اعتباراورقابل شمارہو،جب تک کہ تم توریت، انجیل اور جوکچھ تمہاری طرف اتارا گیا اس کوقائم نہ کرو،یوں کہ جوکچھ اس میں ہے، اس پر عمل کرو اوراس میں جوکچھ ہے، اس میں سے مجھ پر ایمان لانابھی ہے۔ (تفسیر جلالین، ص 150، دار الحدیث، القاھرۃ)

آیت مبارکہ کی تفسیر:

اب آیت مبارکہ کاحاصل یہ نکلا کہ:

جوبظاہرمسلمان ہے اوریہودی،صابی ،نصرانی،کوئی بھی ہو،ان میں سے جوبھی ضروریاتِ دین پرایمان لائے (قرآن عظیم کواللہ کا کلام، محمدصلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو سچا رسول اللہ اور خاتم النبیین مانے کہ سب ضروریاتِ دین اس میں آگئے جب تک وہ کوئی قول یافعل ایمان کے خلاف نہ کرے) اور نیک کام کرے (یعنی شریعت محمدیہ کے مطابق کہ پچھلی تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں) اس پر کچھ خوف وغم نہیں۔(مزید تفصیل کے لیے فتاوی رضویہ، ج 14، ص 698 تا 707کامطالعہ مفیدرہے گا۔)

نوٹ: یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ! آج کل کے عیسائی عموما دہریے ہوتے ہیں کہ وہ سرے سے خدا تعالی کے وجود کو ہی نہیں مانتے۔

بہارشریعت میں ہے "اور اگر صرف نام کی یہودی نصرانی ہوں اور حقیقۃً نیچری اور دہریہ مذہب رکھتی ہوں، جیسے آجکل کے عموماً نصاریٰ کا کوئی مذہب ہی نہیں تواُن سے نکاح نہیں ہوسکتا، نہ ان کا ذبیحہ جائز بلکہ ان کے یہاں تو ذبیحہ ہوتا بھی نہیں۔" (بہار شریعت، ج 02، حصہ 07، ص 31، مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4239

تاریخ اجراء: 24ربیع الاول1447ھ/18ستمبر2025ء