تجھے فلاں سے خدا بھی نہیں بچا سکتا کہنے کا حکم

یہ جملہ "تجھے فلاں سے خدا بھی نہیں بچا سکتا" کہنے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر کوئی شخص مزاح یا مذاق کے طور پر یہ جملہ کہے "تجھے فلاں شخص سے خدا بھی نہیں بچا سکتا" تو شریعت کی روشنی میں ایسے الفاظ کہنا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں مذکورہ جملہ کفر ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا انکار اور کسی مخلوق کے مقابلے میں اُسے عاجز ٹھہرانا ہے، جو کہ شانِ الٰہی میں صریح گستاخی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، ہر مخلوق پر غالب ہے، اور وہ ہر قسم کے عجز، کمزوری، عیب اور نقائص سے پاک ہے۔ اُس پر کوئی چیز غالب نہیں آ سکتی۔ اگرچہ ایسا جملہ مزاحاً یا مذاق میں کہا گیا ہو، تب بھی کفریہ ہونے سے خارج نہیں ہوتا، مذاق سے کلمہ کفر بولنا بھی کفر ہے۔ لہذا ایسا جملہ کہنے والے پر توبہ و استغفار، تجدید ایمان اور نکاح ہونے کی صورت میں تجدید نکاح لازم ہے۔

اللہ تبارک وتعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :

(وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ - وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ)

ترجمہ کنز العرفان: اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (القرآن، پارہ4، سورۃ آل عمران، آیت:189)

اللہ تعالی ہر چیز پر غالب ہے، چنانچہ قرآن پاک میں ہے:

( قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مُنْذِرٌ وَّ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ۔ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ)

 ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں ڈر سنانے والا ہی ہوں اور معبود کوئی نہیں مگر ایک اللہ جوسب پر غالب۔ مالک آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے صاحب عزت بڑا بخشنے والا۔ (القرآن، پارہ23، سورۃ ص، آیت:65،66)

مذکورہ آیت مبارکہ کے تحت تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”انہ تعالی ذکر من صفاتہ فی ھذہ الموضع خمسۃ: الواحد و القھار و الرب و العزیز  و الغفار، اما ۔۔۔ کونہ عزیزا و الفائدۃ فی ذکرہ  ان لقائل ان یقول : ھب انہ رب و مربی و کریم  الا انہ غیر قادر علی کل المقدورات، فأجاب عنہ بانہ  عزیز ای  قادر علی کل الممکنات  فھو یغلب  الکل  و لا یغلبہ شیئ“

ترجمہ: اللہ تعالی نے  اس مقام پر اپنی پانچ صفات بیان فرمائی ہیں۔ واحد، قہار، رب، عزیز اور غفار۔ اللہ تعالی عزیز ہے (یعنی عزت اور غلبے والا)۔ اس صفت کو بیان کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ  اللہ تعالی کے رب ہونے کا سن کر کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ  ہاں ! اللہ تعالی رب، کریم تو ہے لیکن وہ ہر چیز پر قادر نہیں، اللہ تعالی نے اس  بات کا جواب دے دیا کہ وہ عزیز ہے یعنی ہر ممکن چیز پر قادر ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے،جبکہ اس پر کوئی چیز غالب نہیں۔   (تفسیر کبیر، جلد26، صفحہ407، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے: (اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ) ترجمہ کنز العرفان: بے شک اللہ قوت والا،سب پر غالب ہے۔ ( القرآن، پارہ28، سورۃ المجادۃ، آیت:21)

مذکورہ آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں لکھا ہے: بیشک اللہ تعالی قوت والا ہے، اسے کوئی اس کے ارادے سے منع نہیں کر سکتا، عزت والا اور غلبے والا ہے، کوئی اسے مغلوب نہیں کر سکتا۔ (صراط الجنان، جلد10، صفحہ57، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاوی عالمگیری میں ہے

”یکفر اذا وصف اللہ تعالی بما لا یلیق بہ ۔۔۔ او نسبہ الی الجھل، او العجز، او النقص“

ترجمہ: اگر اللہ تعالی کو ایسی صفت سے متصف کیا جو اس کی شان کے لائق نہیں، یا  اس کی طرف جہل یا عجز یا نقص کی نسبت کی تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔ (فتاوی عالمگیری، جلد2، صفحہ258، مطبوعہ: بیروت)

المعتقد المنتقد میں ہے

”ان ساب اللہ تعالی بنسبۃ الکذب و العجز و نحو ذلک الیہ، کافر“

ترجمہ: اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کرنے والا بایں طور کہ اس کی طرف کذب اور عجز وغیرہ کی نسبت کرے، وہ کافر ہے۔ (المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد، صفحہ99، نوریہ رضویہ، لاہور)

مذاق میں کفریہ کلمہ بکنے کے متعلق جزئیات:قرآن پاک میں ہے

﴿وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُؕ- قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ(65) لَاتَعْتَذِرُوْا قَدْکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ﴾

 ترجمہ کنز الایمان: اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو۔ بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہو کر۔ (القرآن، پارہ10، سورۃ التوبۃ، آیت: 65،66)

البحرالرائق میں ہے

”ومن ھزل بلفظ کفر ارتدوان لم یعتقدہ للاستخفاف“

ترجمہ: اور جس نے مذاق میں کلمہ کفر بکا تو وہ مرتد ہوگیا اگرچہ اس کا اعتقاد نہ رکھتا ہو کہ اس کو ہلکا سمجھنا پایا گیا۔(البحرالرائق، جلد5، صفحہ129، دار الکتاب الاسلامی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4324

تاریخ اجراء: 20ربیع الثانی1447 ھ/14اکتوبر2025 ء