دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
اگر کوئی کسی کو یہ کہے کہ: "تو آدھا مسلمان اور آدھا کافر ہے"، تو کہنے والے پر کیا حکم ہوگا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عام طور پر اس طرح کا جملہ کہنے والے کا مقصد کسی کو واقعی کافر سمجھنا نہیں ہوتا، بلکہ صرف یہ کہنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ شخص کچھ معاملات میں کافروں جیسی عادتیں، طور طریقے اور انداز اختیار کر بیٹھا ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص مذاق میں یوں کسی مسلمان کو آدھاکافر کہہ دے، اور دل میں یہ یقین نہ رکھے کہ وہ واقعی کافر ہے، تو اس پر کفر کا حکم نہیں ہوگا، لیکن کسی مسلمان کو ایسا جملہ کہنے کی اجازت نہیں ہے۔
کسی مسلمان کو کافر کہنے کے متعلق صحیح مسلم كی حدیثِ پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
ایما امریء قال لاخیہ: یا کافر، فقد باء بھا احدھما، ان کان کما قال والا رجعت الیہ
یعنی: جو اپنے کسی مسلمان بھائی کو کہے: اے کافر، تو وہ کفر دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹتا ہے، اگر وہ شخص (جس کو کافر کہا گیا ہے،) ایسا ہی ہے، جس طرح دوسرے نے کہا (یعنی اس میں کفریہ بات ہے، تو کفر اسی پر ہے،) ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آئے گا۔ (صحیح مسلم، صفحہ 47، حدیث: 111، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اسی مفہوم کی احادیثِ طیبہ بالفاظِ دیگر کئی کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔
مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی بخاری علیہ الرحمہ لمعات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح میں تحریر فرماتے ہیں:
و توجيهه أنه لما قال للمسلم: كافر فقد جعل الاسلام كفرًا، و اعتقد بطلان دين الاسلام، فافهم، و أما إذا قال بقصد الكذب و السب من غير اعتقاد بطلان دين الاسلام، فقد يوجه
یعنی: اس حدیثِ پاک کی توجیہ یہ ہے کہ جب کسی شخص نے مسلمان کو (کافر اعتقاد کرتے ہوئے) کافر کہا، تو گویا اس کے اسلام کو کفر بنا دیا اور دینِ اسلام کو باطل اعتقاد کیا (تو کفر اس قائل کی طرف لوٹ آئے گا)، بہرحال جب بطورِ جھوٹ یا گالی، کافر کہا، اس کے دین کے بطلان کا اعتقاد نہیں رکھا، تو پھر اس کی توجیہ کی جائے گی (یعنی قائل کو کافر نہیں کہا جائے گا)۔ (لمعات التنقیح، باب حفظ اللسان، جلد 8، صفحہ 142، دار النوادر، دمشق)
مسلمان كو كافر كہنے کی صورت میں قائل پر حکمِ کفر ہونے یا نہ ہونے کے متعلق مجمع الانہر، جامع الفصولین، ذخیرۃ، البحر الرائق، در مختار، رد المحتار و فتاوی عالمگیری وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے
(و اللفظ للآخر) و المختار للفتوى في جنس هذه المسائل أن القائل بمثل هذه المقالات إن كان أراد الشتم و لا يعتقده كافرا لا يكفر، و إن كان يعتقده كافرا فخاطبه بهذا بناء على اعتقاده أنه كافر يكفر
ترجمہ: اس طرح کے مسائل میں فتویٰ کے لیے مختار قول یہ ہے کہ مسلمان کو کافر کہنے والے نے اگر اس طرح کے جملے سے گالی کا قصد کیا، وہ مسلمان کو کافر اعتقاد نہ کرتا ہو، تو قائل کافر نہیں ہو گا، اور اگر وہ دوسرے کو کافر اعتقاد کرتا ہے، تو اس اعتقاد کی بنا پر دوسرے کو کافر کہنے سے قائل خود کافر ہو جائے گا۔ (فتاوی عالمگیری، جلد 2، صفحہ 278، مطبوعہ: کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”کسی مسلمان کو کافر کہا تو (کہنے والے پر) تعزیر ہے۔ رہا یہ کہ قائل خود کافر ہو گا یا نہیں، اس میں دو صورتیں ہیں: اگر اوسے مسلمان جانتا ہے تو کافر نہ ہوا۔ اور اگر اوسے کافر اعتقاد کرتا ہے تو خود کافر ہے کہ مسلمان کو کافر جاننا، دین اسلام کو کفر جاننا ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 2، حصہ9، صفحہ 408، مکتبة المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4529
تاریخ اجراء: 19 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 11 دسمبر 2025ء