
مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1921
تاریخ اجراء:18ربیع الاوّل1446ھ/23ستمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو(معاذ اللہ) خدا بنایا اور ان کے متعلق عیسائیوں کا یہی عقیدہ ہے کہ یہ خدا یا اس کے بیٹے ہیں یا خدا نے ان میں حلول کیا ہوا ہے، جبکہ یہودیوں کی ایک جماعت حضرت عزیر علیہ السلام کو (معاذ اللہ)اللہ کا بیٹا مانتی ہے، یہ دونوں واضح شرکیہ اور کفریہ عقیدے ہیں۔ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کریم کے ایک برگزیدہ پیغمبر اور نبی ہیں۔
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:”اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَۚ-وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًاۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۳۱)“ترجمۂ کنز الایمان: انہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کواللہ کے سوا خدا بنالیا اور مسیح ابنِ مریم کو اور انہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک اللہ کو پوجیں اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں اسے پاکی ہے ان کے شرک سے۔(سورۂ توبہ، آیت31)
اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:” عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو خدا بنایا اور ان کی نسبت یہ باطل عقیدہ رکھا کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہیں یا خدا نے ان میں حُلول کیا ہے حالانکہ انہیں ان کی کتابوں میں اور ان کے انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی طرف سے صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوروہ ان کے شرک سے پاک ہے۔“(تفسیر صراط الجنان، جلد4، صفحہ106، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:”وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْۚ- یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُۚ-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۳۰)“ ترجمہ کنزالایمان: اور یہودی بولے عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی بولے مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ باتیں وہ اپنے منہ سے بکتے ہیں، اگلے کافروں کی سی بات بناتے ہیں،اللہ انہیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔(سورۂ توبہ، آیت30)
اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”امام ابو بکر رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: یہ عقیدہ یہودیوں کے تمام فرقوں کا نہیں بلکہ ان میں سے ایک خاص فرقے کا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں :یہودیوں کی ایک جماعت جو کہ سلام بن مشکم، نعمان بن اوفی، شاس بن قیس اور مالک بن صیف پر مشتمل تھی،نبیٔ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، انہوں نے تاجدارِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عزیر علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے میں یہ بات کہی تو ا س پر یہ آیت نازل ہوئی۔ہمارے علم میں اب اس فرقے کا کوئی وجود نہیں۔(تفسیر صراط الجنان، جلد4،صفحہ105، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟