دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص خودکشی کرلے یا قتل کردیا جائے تو وہ اپنے مقرر کردہ وقت پر مرتا ہے یا اس سے پہلے ہی مر جاتا ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنی موت کے وقت سے پہلے مر جاتا ہے کیونکہ اگر وہ خودکشی نہ کرتا یا قتل نہ کیا جاتا تو وہ مزید زندہ رہ سکتا تھا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اللہ پاک کے علم میں ہر انسان کی موت کا ایک وقت مقرر ہے، نہ تو اس وقت سے پہلے کسی کو موت آتی ہے اور نہ ہی اس وقت کے بعد تک کوئی زندہ رہتا ہے لہٰذا اگر کوئی خودکُشی کر لے یا قتل کردیا جائے تو وہ بھی اپنے مقرر کردہ وقت پر ہی مَرتا ہے۔ یہ کہنا دُرست نہیں ہے کہ اگر وہ خودکشی نہ کرتا یا قتل نہ ہوتا تومزید زندہ رہ سکتا تھا۔ ایسا عقیدہ رکھنا بھی دُرست نہیں ہے۔ (المجموعۃ السنیہ علی شرح العقائد النسفیہ، ص 423، 427)
یہاں یہ اِشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر خودکشی کرنے والا یا قتل ہونے والا اپنی موت کے مقررہ وقت پر ہی مَرا ہے تو پھر قاتل اور خودکُشی کرنے والا دونوں مجرم کیوں قرار پاتے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے قتل اور خودکشی کو حرام قرار دیا ہے ، قاتل اور خودکشی کرنے والا اسی حرام کام کے اِرتِکاب کی وجہ سے مجرم قرار پاتے ہیں کہ یہ کام انہوں نے اپنے اختیار اور مرضی سے کیا ہے۔ (المجموعۃ السنیہ علی شرح العقائدالنسفیہ، ص426)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ شعبان المعظم 1441ھ