
مجیب: محمد احمد سلیم مدنی
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9301
تاریخ اجراء: 20 رمضان المبارک 1446 ھ/21 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی شخص سے سوال ہوا کہ تم مسلمان ہو یا پٹھان؟ اس نے کہا، پٹھان۔ ایسا جواب مسلمان ہونے کا انکار شمار کیا جائے گا یا نہیں؟ اور کفر ہو گا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جو دین لے کر آئے، دل سے اس کی تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے، البتہ دنیاوی احکام کے اجراء کے لئے زبان سے یوں اقرار کرنا ضروری ہے کہ اگر تصدیقِ قلبی کے بعد کسی سے اقرارِ اسلام کا مطالبہ کیا جائے، تو پھر اپنے مسلمان ہونے کا زبان سے اقرار کرنا ضروری ہو گا اور اگر کوئی اقرارِ اسلام کے مطالبے کے باوجود بلا عذر انکار کرے، تو یہ کفر ہے، البتہ اس میں کئی طرح کی تفصیل ہے جس کی یہاں حاجت نہیں۔
لیکن جہاں تک سوال میں بیان کردہ الفاظ کا تعلق ہے، تو اس کلام میں کئی احتمالات ہیں اور جب تک قائل کی نیت اسلام کے انکار کرنے کی نہ ہو، تب تک مطلقاً اس سوال کہ "تم مسلمان ہو یا پٹھان؟ "کے جواب میں "پٹھان" کہنے کو انکارِ اسلام یا کفر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس میں تفصیل یہ ہے کہ جس طرح اسلام اور کفر آپس میں متعارض ہیں، مسلمان ہونا اور پٹھان ہونا دونوں متعارض نہیں ہیں کہ ایک کے اثبات کو دوسرے کی نفی قرار دیا جائے، بلکہ ایک کا تعلق مذہب سے اور دوسرے کا تعلق نسل سے ہے، اور یہ دونوں جدا جدا چیزیں ہیں اور اس کلام کو منطق کی نظر سے دیکھا جائے تو مسلمان اور پٹھان میں عموم خصوص من وجہٍ کی نسبت ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ نسبت جو ایسی دو کلیوں کے درمیان پائی جائے کہ جن میں ہر ایک دوسری کلی کے بعض افراد پر صادق آئے، جیسے مسلمان اور پٹھان کے درمیان نسبت، کہ بعض مسلمان پٹھان ہیں اور بعض پٹھان مسلمان ہیں، یعنی ہر مسلمان پٹھان نہیں ہوتا، بلکہ بعض مسلمان پٹھان اور بعض مسلمان دیگر قوموں سے تعلق رکھتے ہیں، اسی طرح بعض پٹھان مسلمان ہوتے ہیں اور بعض پٹھان غیر مسلم بھی ہوتے ہیں۔
اس کو ہمارے عرف عام کے اعتبار سے یوں سمجھا جائے کہ اگر کوئی کسی پنجابی النسل تاجر سے سوال کرے کہ تم پنجابی ہو یا تاجر ہو؟ تو اس کے جواب میں اگر وہ "پنجابی" کہے، تو اس سے اس کے تاجر ہونے کی نفی نہیں ہو گی اور اگر وہ جواب میں "تاجر" کہے، تو اس سے پنجابی ہونے کی نفی نہیں ہو گی، کیونکہ یہ دونوں متعارض نہیں، بلکہ یہ ممکن ہے کہ بیک وقت اس میں دونوں وصف موجود ہوں اور جواب میں ایک کا ذکر کرنا، دوسرے کی نفی کرنا نہیں ہے۔
لہذا یہ سوال کرنا کہ تم مسلمان ہو یا پٹھان؟ اس کے جواب میں اگر کوئی "پٹھان" کہتا ہے، تو اس سے اس کے مسلمان ہونے کی نفی نہیں ہو گی کہ لاکھوں پٹھان بھی مسلمان ہیں اور چونکہ اس سوال کے جواب میں پٹھان کہنے سے اسلام کی نفی و انکار لازم نہیں آ رہا، اس لئے اس جواب کو مطلقاً انکارِ اسلام و کفر نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ممکن ہے ایسا کہنے والے کی مراد یہ ہو کہ میں اپنی شناخت اپنی قومیت و نسل سے کرواتا ہوں یا اس کی مراد یہ ہو کہ پٹھان اسلام پر شدت سے عمل پیرا ہیں اور میں عام مسلمان نہیں بلکہ پٹھان ہوں۔
اور یہ یاد رہے کہ ضروریاتِ دین کے متعلق ایسا سوال کہ جس کے جواب میں انکار نہیں کیا جا سکتا، ورنہ جواب کفر ہو جائے، وہاں اگر کوئی عام شخص انکار کا جواب دے، جیسے کسی سے اسلام، اللہ کی وحدانیت کو جاننے اور اللہ سے ڈرنے کا سوال کیا جائے، اور کوئی اس کے جواب میں انکار کر دے، تو علماء اس میں نیت کی خرابی ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے حتی الامکان تخفیف کا پہلو نکالتے ہیں اور اگر کہنے والا اپنے قول کی کوئی تاویل بیان کرے تو اس کی تاویل کا لحاظ کرتے ہیں کہ عوام الناس گرائمر اور جملے بنانے کے اصول و قواعد سے واقف نہیں ہوتے اس لئے علماء، تکفیر کے معاملے میں عوام کے ایسے کلام کو عربی لغت کے اصول و قواعد کی باریکیوں پر پرکھنے کی بجائے یہ حکم دیتے ہیں کہ الفاظِ کفر میں اگر کوئی تاویل ممکن ہو، تو عوام کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے، کیونکہ عوام گفتگو کرتے ہوئے اپنے کلمات کی تمام خوبیوں اور خامیوں کو نہیں جانتے کہ کس وقت کیا جواب دینا ہے؟ اور نہ ہی ان کا برائی کا ارادہ ہوتا اور نہ ہی ان کا ذہن اس کی طرف جاتا ہے، لہذا اگر وہ کوئی قابلِ فہم تاویل بیان کریں تو اُن کی تاویل کا لحاظ کرتے ہوئے حکمِ کفر سے گریز کیا جائے گا، ہاں اگر وہ خود اپنے کلام کا کوئی فاسد و کفریہ معنی ہی بیان کریں تو پھر اس کلام کو قائل کی وضاحت کے مطابق کفر قرار دیا جائے گا۔
مخصوص صورتوں میں اقرارِ اسلام کے مطالبہ پر عدمِ اقرار کفر ہے، کیونکہ یہ تصدیقِ قلبی نہ ہونے کی علامت ہے، چنانچہ التقرير والتحبير فی شرح التحرير میں ہے:
”(والإقرار) شرط (لأحكام الدنيا) أي لإجرائها عليه۔۔۔ و المصر على عدم الإقرار مع المطالبة به كافر وفاقا لكون ذلك من أمارات عدم التصديق“
ترجمہ: احکامِ دنیا کے اجراء کے لئے اقرار شرط ہے اور جس سے اقرارِ اسلام کا مطالبہ کیا جائے اور وہ اقرار نہ کرنے پر اصرار رکھے، وہ بالاتفاق کافر ہے کیونکہ یہ دل میں تصدیق نہ ہونے کی علامت ہے۔(التقرير و التحبير فی شرح التحرير، الباب الاول، الفصل الثانی، جلد 2، صفحہ 111، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
مخصوص صورتوں میں اسلام کا عدمِ اقرار، عدمِ تصدیق قلبی کا اظہار ہے، چنانچہ منح الروض الازہر شرح فقہ اکبر میں ہے:
”اللسان ترجمان الجنان فیکون دلیل التصدیق وجودا وعدما فاذا بدلہ بغیرہ فی وقت یکون متمکنا من اظہارہ کان کافر اوامااذا زال تمکنہ من الاظہار بالاکراہ لم یصر کافرا“
ترجمہ: زبان دل کی ترجمان ہے، تو یہ دل کی تصدیق یا عدمِ تصدیق پر دلیل ہوگی، تو جب وہ اظہارِ ایمان پر قدرت کے باوجود عدمِ تصدیق کا اظہار کرتا ہے، تو وہ کافر ہو گیا، البتہ جب کسی جبر کی وجہ سے اظہار پر قدرت نہ ہو، تو اب کافر نہ ہوگا۔(منح الروض الازہر شرح فقہ اکبر، باب الایمان، صفحہ 154، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اسی بارے میں فتاوی شارح بخاری میں ہے: ”شوہرنے پوچھا، کیا تو مسلمان نہیں۔ اس کے جواب میں اس نے کہا "نہیں"۔ اس کا صریح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے مسلمان نہ ہونے کا اقرار کر لیا، مسلمان نہ ہونے کا اقرار، کافر ہونے کا اقرار ہے، دونوں میں تلازم ہے۔“(فتاوی شارح بخاری، جلد 2، صفحہ 372، دائرۃ البرکات)
جن دو چیزوں میں عموم خصوص من وجہٍ کی نسبت ہو، ان میں ایک کا اثبات دوسرے کی نفی کا تقاضا نہیں کرتا، چنانچہ آداب البحث والمناظرۃ میں ہے:
”القسم الخامس منها: هو ما يكون فيه السند أعم من نقيض الدعوى من وجه و أخص منه من وجه۔۔۔ (الأبيض) و (غير الإنسان) بينهما عموم و خصوص من وجه۔۔۔ و هذا القسم لا فائدة في إثباته و لا نفيه للمعلل و لا للمستدل؛ لأن الأعمين من وجه لا يقتضي وجود أحدهما نفي الآخر و لا عدمه و لا وجوده
ترجمہ: پانچویں قسم وہ ہے جس میں دلیل، دعوے کی نقیض سے ایک پہلو سے عام اور دوسرے پہلو سے خاص ہو۔ سفیداور غیر انسان کے درمیان عموم خصوص من وجہ کی نسبت ہے اور اس قسم کو ثابت کرنے یا اس کی نفی کرنے میں نہ تو استدلال کرنے والے کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی دلیل لانے والے کو، کیونکہ جو دو چیزیں ایک پہلو سے عام ہوں، ان میں سے ایک کا وجود نہ تو دوسرے کی نفی کا تقاضا کرتا ہے اور نہ ہی اس کے عدم کا اور نہ اس کے وجود کا۔(آداب البحث و المناظرہ، جلد 1، صفحہ 221، مطبوعہ دار ابن حزم، بیروت)
کسی نے اللہ سے ڈرنے کا سوال کیا، تو جواب میں انکار کرنے والے کی ممکنہ تاویل کی وجہ سے تکفیر نہیں کی جائے گی، چنانچہ فتاوی قاضی خان میں ہے:
”رجل أراد أن يضرب غيره فقال له ذلك الرجل ألا تخاف الله تعالى، فقال: لا، روي عن محمد رحمه الله تعالى أنه سئل عن هذا، فقال: لا يكفر؛ لأن له أن يقول التقوى فيما أفعل“
ترجمہ: ایک شخص نے دوسرے کو مارنا چاہا، تو وہ بولا "کیا تو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا؟ تو اس نے جواب میں کہا "نہیں"، امام محمد رحمہ اللہ تعالی سے پوچھا گیا، تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا: اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، اس لئے کہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ تقوی اسی میں ہے، جو میں کرتا ہوں۔ (فتاوی قاضی خان، کتاب السییر، جلد 3، صفحہ 513، مطبوعہ بیروت)
کسی سے اللہ کی وحدانیت کو جاننے کا سوال ہوا، تو جواب میں انکار کرنے والا اگر تاویل بیان کر دے، تو تکفیر نہیں کی جائے گی، چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے
”و في فتاوى النسفي سئل عن امرأة قيل لها توحيد ميداني فقالت: لا إن أرادت أنها لا تحفظ التوحيد الذي يقوله الصبيان في المكتب لا يضرها، و إن أرادت أنها لا تعرف وحدانية الله تعالى فليست بمؤمنة“
ترجمہ: اور فتاوی نسفی میں ہے کہ پوچھا گیا کہ ایک عورت سے کہا گیا: کیا تُو تو حید کو جانتی ہے؟ اس نے کہا نہیں، تو اگر اس کی مراد یہ ہے کہ مجھے اس طرح یاد نہیں، جس طرح بچے مدرسہ میں بیان کرتے ہیں، تو یہ اس کے حق میں مضر نہیں (یعنی کفر نہیں)، اور اگر اس کی مراد یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو نہیں پہچانتی، تو ایسی عورت مومنہ نہیں۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب السیر، الباب التاسع، جلد 2، صفحہ 257، مطبوعہ کوئٹہ)
عوام الناس گرائمر کے اصول و قواعد سے واقف نہیں ہوتے، حکمِ کفر میں اس بات کا بھی لحاظ کیا جائے گا، چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے
”ولو قال: لو أنصف الله عز وجل يوم القيامة انتصف منك يكفر أما لو قال: إذا مكان لولا يكفر“
ترجمہ: اور اگر کہا کہ اگر اللہ تعالی نے قیامت کے دن انصاف سے فیصلہ فرمایا، تو میں تجھ سے انتقام لوں گا، تو اس کی تکفیر کی جائے گی، لیکن کلمہ "اگر" کی جگہ اس نے لفظ "جب" تو تکفیر نہیں کی جائے گی۔
اس عبارت کے تحت "التعلیقات الرضویہ علی فتاوی الھندیہ" میں ہے
”و الصواب: لا، و العوام قلما يفرقون بين "لو" و "إذا"، و لا تبتني كلماتهم على دقائق العربية“
ترجمہ: اور درست یہ ہے کہ تکفیر نہیں کی جائے گی، اس لئے کہ عوام الناس بہت کم ہی لفظِ "لو" (اگر)اور لفظِ "اذا" (جب) کے درمیان فرق کرتے ہیں اور اُن کلمات کو عربی زبان کی باریکیوں پر نہیں پرکھا جائے گا۔(التعلیقات الرضویہ علی فتاوی الھندیہ، صفحہ 41، مطبوعہ کراچی)
ایک کفریہ جملے کے بارے میں کلام کرتے ہوئے "التعلیقات الرضویہ علی فتاوی الھندیہ" میں ہے
”قلت: و الذي يظهر المساهلة فيه مع العوام الذين يتكلمون و لا يعرفون ما في مطاوي کلماتهم من القبائح و لا يريدونها ولا يذهب أذهانهم إليها، و لو أخبروا بها لتبرؤوا عنها“
ترجمہ: میں کہتا ہوں: جو حکم (مجھ پر ) ظاہر ہوا، وہ یہ ہے کہ اس میں عوام کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے، (کیونکہ) وہ گفتگو کرتے وقت اپنے کلمات کی برائیوں کو نہیں جانتے اور نہ ہی ان کا برائی کا ارادہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا ذہن اس کی طرف جاتا ہے اور بالفرض اگر انہیں اس (برائی) کی خبر ہو جائے، تو وہ ضرور اس سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔(التعلیقات الرضویہ علی فتاوی الھندیہ، صفحہ 43، مطبوعہ کراچی)
کسی کلام میں کفریہ پہلو کے ساتھ ساتھ تاویل کا پہلو موجود ہو، تو تاویل کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، چنانچہ بحر الرائق میں ہے:
”و في الخلاصة وغيرها إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير و وجه واحد يمنع التكفير فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر فلا ينفعه التأويل“
ترجمہ: خلاصہ اور دیگر کتب میں ہے، جب کسی بات میں تکفیر کی متعدد وجوہ ہوں اور ایک وجہ ایسی ہو جو تکفیر سے منع کرے، تو مفتی پر لازم ہے کہ وہ مسلمان پر حسنِ ظن کرتے ہوئے اسی وجہ کا لحاظ کرے، جو مانع تکفیر ہے، بزازیہ میں یہ زائد ہے کہ مگر جب وہ خود کفر کو واجب کرنے والے ارادہ کی تصریح کر دے، تو اسے تاویل نفع نہیں دے گی۔(بحر الرائق، باب احکام المرتدین، جلد 5، صفحہ 210، مطبوعہ کوئٹہ)
کلام میں کفر کے علاوہ اسلام کا بھی احتمال ہو، تو کلام کو اسی پر محمول کیا جائے گا، چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے: ”ہمارے ائمہ نے حکم دیا ہے کہ اگر کسی کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک اسلام کا، تو واجب ہے کہ احتمالِ اسلام پر کلام محمول کیا جائے جب تک اس کا خلاف ثابت نہ ہو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 604 تا 605، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
اسی بارے میں ایک اور مقام پر ہے ”فرض قطعی ہے کہ اہل کلمہ کے ہر قول و فعل کو اگر چہ بظاہر کیسا ہی شنیع وفظیع ہو، حتی الامکان کفر سے بچائیں، اگر کوئی ضعیف سے ضعیف، نحیف سے نحیف تاویل پیدا ہو، جس کی رُو سے حکمِ اسلام نکل سکتا ہو، تو اس کی طرف جائیں اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانبِ کفر جاتے ہوں خیال میں نہ لائیں۔۔۔ احتمالِ اسلام چھوڑ کر احتمالاتِ کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 12، صفحہ 317، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم