رسول اللہ ﷺ کو خوش کرنے کی نیت سے عبادت کرنا

نبی پاک ﷺ کو خوش کرنے کی نیت سے عبادت کرنا کیسا ؟

دارالافتاء اہلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص عبادت اس نیت سے کرے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھی خوش ہو، تو کیا یہ نیت شرعاً درست ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عبادت صرف اللہ رب العزت کی ہوسکتی ہے، ہاں عبادت میں اللہ عزوجل کی رضا و خوشنودی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنے کی بھی نیت کرنا، اس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ یہ نیت عبادت کو مزید کامل و اکمل اور با برکت بنا دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا، دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا ہی میں پوشیدہ ہے۔ کوئی بھی نیکی، عبادت، چاہے کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو، اگر اس سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام راضی نہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی نہیں ہوتا۔ لہٰذا عبادت کرتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے اور ان کی رضا حاصل کرنے کی نیت کرنا نہ صرف درست، بلکہ باعثِ فضیلت ہے، کیونکہ یہ نیت دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہے۔مزید یہ طرزِ عمل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مبارک طریقے سے بھی ثابت ہے، اور قرآنِ کریم میں بھی متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے ساتھ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اکٹھا فرمایا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ﴾ ترجمہ: کنزالعرفان: اللہ اور اس کارسول اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ لوگ اسے راضی کریں، اگر وہ ایمان والے ہیں۔ (پارہ10، سورۃ التوبۃ: 62)

تفسیر ابی سعود میں ہے:

”أن رضاه صلى اللہ عليه وسلم مندرج تحت رضاه سبحانه وإرضاؤه صلى اللہ عليه وسلم إرضاء له تعالى لقوله تعالى: ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ﴾“

 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی، اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے تحت شامل ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نےاللہ کی اطاعت کی۔‘‘ (تفسیر ابو السعود، جلد4، صفحہ78، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

ہجرت کرنا اعلی درجے کی عبادت ہےاور حدیث پاک میں واضح طور پر ہجرت کے ارادے میں  اللہ عزوجل کے ساتھ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شریک کیا گیا۔ حدیث پاک اور اس کی شرح ملاحظہ ہو۔

صحیح بخاری کی حدیث پاک ہے:

”عن عمر أن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم قال: الأعمال بالنية، ولكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى اللہ ورسوله فهجرته إلى اللہ ورسوله، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها، أو امرأة يتزوجها، فهجرته إلى ما هاجر إليه“

 ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو، تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہے، اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو، تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ (صحیح بخاری، جلد1، صفحہ20، رقم الحدیث: 54، دار طوق النجاۃ)

علامہ عبد الرؤوف مناوی رحمۃ اللہ علیہ ’’فیض القدیر شرح جامع الصغیر‘‘ میں فرماتے ہیں:

”والمعنى من هاجر لله ولرسوله أي لاتباع أمرهما وابتغاء مرضاتهما فقد هاجر إليهما حقيقة“

 ترجمہ: اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی، یعنی ان کے حکم کی پیروی اور ان کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے تو حقیقت میں اس نے انہی (اللہ اور رسول) کی طرف ہجرت کی۔ (فیض القدیر، جلد1، صفحہ30، المكتبة التجارية الكبرى، مصر)

امام احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ ’’ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری‘‘ میں لکھتے ہیں:

(فمن كانت هجرته إلى اللّٰہ ورسوله)۔۔۔۔إلى لانتهاء الغاية أي إلى رضا اللہ ورسوله“

 ترجمہ: پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو۔۔۔(اس میں) ’’إلىٰ‘‘ مقصود کی انتہا کے لیے ہے، یعنی ’’اللہ اور اس کے رسول کی رضا تک پہنچنے کے لیے(ہجرت کرنا جس کا آخری مقصد ہو)۔ (إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري، جلد9، صفحہ401، المطبعة الكبرى الأميرية، مصر)

اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں: ’’شریعت میں رب کو راضی کرنے کے لئے وطن چھوڑنے کا نام ہجرت ہے۔ ہجرت بوقت ضرورت اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔۔۔ یعنی جو ہجرت میں ﷲ اور رسول کی خوشنودی کی نیت کرے، اس کی ہجرت واقعی ﷲ اور رسول کی طرف ہی ہوگی، لہذا حدیث میں دَور نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادات میں رضائے رب کے ساتھ حضور کی رضا کی نیت شرک نہیں، بلکہ عبادت کو کامل کرتی ہے۔ دیکھو ہجرت عبادت ہے، مگر فرمایا گیا: "اِلیَ اللہ ورسولہ"(اللہ اور اس کے رسول کی طرف)۔‘‘ (مرآۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ17، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

عبادات میں ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو راضی کرنے کی نیت کرنا صحابہ کرام کا طریقہ کار رہا ہے: چنانچہ حدیث پاک اور اس کی شرح ملاحظہ ہو:

صحیح بخاری شریف کی حدیث پاک ہے:

”أن عبد اللہ بن كعب، قال: سمعت كعب بن مالك رضي اللہ عنه، قلت: يا رسول اللہ، إن من توبتي أن أنخلع من مالي صدقة إلى اللہ، وإلى رسوله صلى اللہ عليه وسلم؟ قال: «أمسك عليك بعض مالك، فهو خير لك»، قلت: فإني أمسك سهمي الذي بخيبر“

 ترجمہ: حضرت عبداللہ بن کعب فرماتے ہیں: میں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صدقہ کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنا کچھ مال اپنے پاس رکھ لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: تو میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لیتا ہوں۔ (صحیح بخاری، جلد4، صفحہ7، رقم الحدیث: 2757، دار طوق النجاۃ)

اس حدیث کی شرح میں امام احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ ’’ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’(صدقة إلى اللہ ورسوله) إلى بمعنى اللام أي صدقة خالصة لله ورسوله أو تتعلق بصفة مقدّرة أي صدقة واصلة إلى اللہ أي إلى ثوابه وجزائه وإلى رسوله أي إلى رضاه وحكمه وتصرفه“  ترجمہ: اللہ اور اُس کے رسول کی طرف صدقہ۔ ’’إلى‘‘ یہاں ’’لام‘‘ کے معنی میں ہے، یعنی ایسا صدقہ جو خاص اللہ اور اُس کے رسول کے لیے ہو۔ یا یہ کہ ’’إلى‘‘ کسی محذوف صفت سے متعلق ہے، یعنی ایسا صدقہ جو اللہ تک پہنچنے والا ہو، یعنی اُس کے ثواب اور جزا تک، اور رسول تک پہنچنے والا ہو یعنی اُن کی رضا، حکم اور تصرف تک۔ (إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري، جلد9، صفحہ402، المطبعة الكبرى الأميرية، مصر)

اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں: ’’یعنی اﷲ و رسول کو راضی کرنے کے لیے اپنا سارا مال صدقہ کرتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ عبادات میں ﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو راضی کرنے کی نیت شرک نہیں بلکہ سنت صحابہ ہے، دیکھو حضرت کعب حضور کی بارگاہ میں عرض کررہے ہیں اور حضور اس پر فتویٰ کفر نہیں دیتے بلکہ اس کو جائز رکھتے ہیں، رب تعالیٰ فرماتاہے: ﴿وَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ﴾۔(مرآۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 237، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ محبوبان خدا کی طرف تقرب مطلقاًممنوع نہیں جب تک بروجہ عبادت نہ ہو، تقرب نزدیکی چاہنے رضامندی تلاش کرنے کو کہتے ہیں اور محبوبانِ بارگاہ عزت مقربان حضرت صمدیت علیہم الصلٰوۃ والسلام کی نزدیکی و رضا ہر مسلمان کو مطلوب ہے اور وہ افعال کہ اس کے اسباب ہوں بجالانا ضرور محبوب، کہ ان کا قرب بعینہٖ قرب خدا اور ان کی رضا اللہ کی رضا ہے۔

قال ﷲ تعالیٰ﴿وَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ﴾

 اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ایمان والوں کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول زیادہ حق رکھتے ہیں کہ انھیں راضی کیا جائے۔ ‘‘     (فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ132، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-944

تاریخ اجراء: 23 ربیع الاخر1447ھ/17 اکتوبر 2025ء