Tadfeen ke Baad Surah Al-Baqarah ki Ayaat Parhna Kaisa?

میت دفن کرنے کے بعد قبر پر سورہ بقرہ کی آیات پڑھنا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9018

تاریخ اجراء:23محرم الحرام1446ھ/30 جولائی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ میت کی تدفین کے بعد بعض لوگ قبر کے سِرہانے  سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات "الٓمّٓ" سے "الْمُفْلِحُوْنَ"اور پاؤں کی طرف سورہ بقرہ کی آخری آیات "اٰمَنَ الرَّسُوْلُ" سے ختمِ سورہ تک پڑھتے ہیں، تو اس طر ح پڑھنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   میت کو دفن کرنے کے بعد قبر کے سِرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات "الٓمّٓ" سے "الْمُفْلِحُوْنَ" اور پاؤں کی طرف سورہ بقرہ کی آخری آیات "اٰمَنَ الرَّسُوْلُ " سے ختمِ سورہ تک پڑھنا مستحب ہے اور  یہ احادیثِ طیبہ و اقوالِ فقہائے کرام سے ثابت ہے ۔

   چنانچہ المعجم الکبیر  اور مجمع الزوائد میں ہے، واللفظ للآخر:”وعن عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج قال: قال لي ابي: يا بني، إذا مت فالحد لي لحدا، فإذا وضعتني في لحدی فقل: بسم اللہ وعلى ملة رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ  واٰلہ وسلم، ثم شن التراب علي شنا، ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة وخاتمتها، فإني سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ  واٰلہ وسلم يقول ذلك۔رواه الطبراني في الكبير ورجاله موثقون“ترجمہ:حضرت عبد الرحمن بن علا ء بن اللجلاج رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے فرمایا:اے میرے بیٹے! جب میں وفات پا جاؤں، تو تم میرے لیے لحد تیار کرنا، پھر جب مجھے لحد میں رکھو، تو "بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ" کہنا، پھر مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا، پھر میرے سِرہانے  سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات پڑھنا ، کیونکہ میں نے  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو  یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ اس حدیث پاک کو امام طبرانی نے " المعجم الکبیر " میں  روایت فرمایا  اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔(مجمع الزوائد و منبع الفوائد، جلد3، صفحہ44، مطبوعہ مكتبة القدسی، قاهرہ)

   السنن الكبرى میں ہے:”إنی رأيت ابن عمر يستحب ذلك“ترجمہ:(حضرت عبد الرحمن بن علا ء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے والد ان کو   بعدِ تدفین سورہ بقرہ کی ابتدائی و آخری آیات  پڑھنے کے متعلق اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں )، کیونکہ میں نے حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو دیکھا  ہے کہ وہ اس فعل (یعنی تدفین کے بعد سورہ بقرہ کی ابتدائی و آخری آیات  پڑھنے) کو مستحب سمجھتے تھے۔(السنن الکبری للبیھقی، جلد4، صفحہ93، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   مشکوۃ المصابیح میں ہے:”عن عبد اللہ بن عمر قال: سمعت النبی صلی اللہ تعالی علیہ  واٰلہ وسلم يقول: إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة وعند رجليه بخاتمة البقرة“ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے ہوئے سنا:جب تم میں سے کوئی وفات پا جائے، تو اس کو اپنے پاس نہ روکو  اور تم  اس کو اس کی قبر کی طرف لیے جانے میں جلدی کرو  اور اس (کی قبر) کے سِرہانے  سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات  اور پاؤں کی طرف سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں۔(مشکوۃ المصابیح، جلد1، صفحہ538، مطبوعہ المكتب الإسلامی، بيروت)

   مذکورہ حدیث مبارک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:”(عند رأسه فاتحة البقرة) أی: إلى المفلحون (وعند رجليه بخاتمۃ البقرة) أی: من(آمن الرسول) إلخ“یعنی میت کی قبر کےسِرہانے سورہ بقرہ کی ابتداء سے "الْمُفْلِحُوْنَ" تک  پڑھے اوراس کے  پاؤں کی طرف  سورہ بقرہ کی آخری آیات یعنی "اٰمَنَ الرَّسُوْلُ" سے ختمِ سورہ تک  پڑھے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد3، صفحہ1228، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:”فقد ثبت : أنه عليه الصلاة والسلام قرأ أول سورة البقرة عند رأس ميت وآخرها عند رجليه“ترجمہ:بیشک نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے میت کے سِرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات پڑھیں اور اس کے پاؤں کی طرف سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھیں۔(حاشیۃ ابن عابدین، جلد3، صفحہ179، مطبوعہ کوئٹہ)

   علامہ زَبِیدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:800ھ/1397ء) لکھتےہیں:”كان ابن عمر يستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها“ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا تدفینِ میت کے بعد قبر پر سورہ بقرہ کی ابتدائی  اور آخری آیات پڑھنے کو مستحب  سمجھتے تھے۔(الجوھرۃ النیرۃ، جلد1، صفحہ110، مطبوعہ المطبعة الخيريہ)

   علامہ طَحْطاوی  حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1231ھ/1815ء) لکھتے ہیں:”وفی السراج ويستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها“ ترجمہ:"کتاب السراج "  میں ہے  کہ تدفینِ میت کے بعد قبر پر سورہ بقرہ کی ابتدائی  اور آخری آیات پڑھنا مستحب ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ621، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”مستحب یہ ہے کہ دفن کے بعد قبر پر سورہ ِ بقرہ کا اول و آخر پڑھیں، سرہانے "الم" سے "مفلحون" تک اور پائنتی "امن الرسول" سے ختم سورت تک پڑھیں۔“(بھارِ شریعت، جلد1،حصہ4، صفحہ849،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم