تجدیدِ ایمان کا طریقہ

تجدیدِ ایمان کا طریقہ کیا ہے؟

دارالافتاء اہلسنت عوت اسلامی)

سوال

تجدیدِ ایمان کا طریقہ بتا دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

تجدید ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ:

"جو کفر سرزد ہوا اس کو کفر تسلیم کرے، دل میں اس سے نفرت اور بیزاری کا اظہار بھی ہو، کفرکے سرزد ہونے پر ندامت و پشیمانی بھی ہو اور آئندہ نہ کرنے کا پکا ارادہ بھی ہو، اور توبہ میں اس کفر کا ذکر بھی کیا جائے، مثلا: ”یا اللہ عزوجل! مجھ سے جوفلاں کفر سرزد ہوا، میں اِس کُفر سے توبہ کرتا ہوں" پھر تجدید ایمان کے طور پر کلمہ شہادت یا کلمہ طیبہ پڑھے، مثلا کہے:

"لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ (یعنی اللہ عزوجل کے سِوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم، اللہ عزوجل کے رسول ہیں۔)

اور اگر کسی نے مَعَاذَ اللہ ایک یا کئی کفریات بکے ہوں، اور یاد نہ ہو کہ کیا کیا بکا ہے، تو یوں کہے: ”یا اللہ عزوجل! مجھ سے جو جو کُفرِیّات صادِر ہوئے ہیں، میں ان سب سے توبہ کرتا ہوں، پھر تجدیدایمان کے طور پر کلمہ پڑھ لے۔“

اور اگر یہ معلوم ہی نہیں کہ کُفر بکا بھی ہے یا نہیں، تب بھی اگر احتیاطاً توبہ کرنا چاہے، تو اس طرح کہے: ”یا اللہ عزوجل! اگر مجھ سے کوئی کُفر ہو گیا ہو، تو میں اُس سے توبہ کرتا ہوں، یہ کہنے کے بعد کلمہ پڑھ لے۔“

نوٹ: یاد رہے! اگر اعلانیہ کفر سرزد ہوا تھا تو توبہ بھی اعلانیہ کرنی ہوگی، لہذا اگر توبہ کرتے وقت وہ لوگ موجود ہیں، تو ان کے سامنے توبہ کر لے اور اگر توبہ کرتے وقت وہ لوگ موجود نہیں تو ابھی تنہا توبہ کر لے اور بعد میں ان کو مطلع کر دے۔

حضرت علامہ مولانا، ملاعلی قاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

وأركان التوبة على ما قاله العلماء ثلاثة الندم والقلع والعزم على أن لا يعود

ترجمہ: توبہ کے ارکان علما کے بیان کے مطابق تین ہیں: گناہ پر ندامت، اس کو چھوڑنا اور آئندہ نہ کرنے کا عزم۔ (جمع الوسائل فی شرح الشمائل، جلد2، صفحہ183، مطبوعہ: مصر)

توبہ کے متعلق امامِ اہل سنت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”سچی توبہ اللہ عزوجل نے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی و وافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک و کفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پر اس لئے کہ وہ اس کے رب عزوجل کی نافرمانی تھی، نادِم و پریشان ہو کر‏ فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گُناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دِل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہوبجا لائے۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ 121۔122، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

"کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب" میں ہے ”جس کُفر سے توبہ مقصود ہے وہ اُسی وقْت مقبول ہو گی جبکہ وہ اُس کُفر کو کُفر تسلیم کرتا ہو اور دل میں اُس کُفر سے نفرت و بیزاری بھی ہو۔ جو کُفر سرزد ہوا توبہ میں اُس کا تذکِرہ بھی ہو۔ مَثَلاً جس نے ویزا فارم پر اپنے آپ کو کرسچین لکھ دیا وہ اس طرح کہے: "یا اللہ عَزَّوَجَلَّ! میں نے جو ویزا فارم میں اپنے آپ کو کرسچین ظاہِر کیا ہے اِس کُفر سے توبہ کرتا ہوں۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم (اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں)" اِس طرح مخصوص کُفر سے توبہ بھی ہو گئی اور تجدیدِ ایمان بھی۔ اگر مَعَاذ اللہ عَزَّوَجَلَّ کئی کُفرِیّات بکے ہوں اور یاد نہ ہو کہ کیا کیا بکا ہے تو یوں کہے: "یا اللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھ سے جو جو کُفرِیّات صادِر ہوئے ہیں میں ان سے توبہ کرتا ہوں۔" پھر کلِمہ پڑھ لے۔ (اگر کلمہ شریف کا ترجَمہ معلوم ہے تو زَبان سے ترجَمہ دُہرانے کی حاجت نہیں) اگر یہ معلوم ہی نہیں کہ کُفر بکا بھی ہے یا نہیں تب بھی اگر احتیاطاً توبہ کرنا چاہیں تو اسطرح کہئے: "یا اللہ عَزَّوَجَلَّ! اگر مجھ سے کوئی کُفر ہو گیا ہو تو میں اُس سے توبہ کرتا ہوں۔" یہ کہنے کے بعد کلِمہ پڑھ لیجئے۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، صفحہ 621، 622، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاوی رضویہ میں ہے ”اعلانیہ کفر کی توبہ اعلانیہ لازم۔“ (فتاوی رضویہ، جلد15، صفحہ98، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

"کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب" میں ہے ”ہاں اگر لوگوں کے سامنے مُرتَد ہوا تھا اور پھر اِسی حال میں نِکاح کیا تھا تو پھر سب کے سامنے توبہ و تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح کرے۔ یا اُن لوگوں کو اپنی توبہ و تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح پر مُطَّلع کرے۔ حدیث پاک میں ہے: سلطانِ دو جہان، مدینے کے سلطان، رحمتِ عالمیان، سرورِ ذیشان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت بنیاد ہے: "جب تم کوئی گناہ کرو تو توبہ کر لو، اَلسِّرُّ بِالسِّرِّ وَالْعَلَانِیَہُ بِالْعَلانِیَۃ یعنی پوشیدہ گناہ کی توبہ پوشیدہ اور عَلانیہ گناہ کی توبہ عَلانیہ۔“ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، صفحہ625، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4535

تاریخ اجراء:20جمادی الثانی1447ھ/12دسمبر2025ء