تقدیر کے ساتھ تدبیر اختیار کرنا تقدیر کے منافی نہیں ہے؟

تقدیر کے ساتھ ساتھ تدبیر و احتیاط اختیار کرنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا ایسا کہنا درست ہے کہ تقدیر کے ساتھ ساتھ تدبیر و احتیاط اختیار کرنا تقدیر کے منافی نہیں ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جائز معاملات میں تدبیر و احتیاط اختیار کرنا شرعا مستحسن یعنی اچھا عمل ہے اور اس کی بہت ساری صورتیں ایسی ہیں جو شرعا مستحب و مسنون ہیں کیونکہ دنیا عالم اسباب ہے اور اللہ پاک کی سنت جاریہ ہے کہ سبب کے بعد مسبب پیدا فرماتا ہے۔ لہذا تقدیر پر ایمان کے ساتھ ساتھ رزق روزی وغیرہ معاملات میں تدبیر و احتیاط اور اسباب کو بھی اختیار کیا جائے اور یہ تقدیر کے بالکل منافی نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام و صحابہ کرام علیہم الرضوان نے تقدیر پر ایمان کے ساتھ ساتھ تدبیر و احتیاط کو بھی اختیار فرمایا ہے اور اس کی ترغیب بھی دلائی ہے۔ اور اس کا انکار کرنے والا، اسے فضول اور مردود کہنے والا کھلا گمراہ ہے۔

سیدی اعلی حضرت مجدد دین و ملت، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: "فی الواقع عالم میں جو کچھ ہوتا ہے سب اللہ جل جلالہ کی تقدیر سے ہے ۔۔۔ مگر تدبیر زنہار معطل نہیں۔ دنیا عالمِ اسباب ہے۔ رب جل مجدہ نے اپنی حکمت بالغہ کے مطابق اس میں مسببات کو اسباب سے ربط دیا۔ اور سنتِ الہیہ جاری ہوئی کہ سبب کے بعد مسبب پیدا ہو۔ جس طرح تقدیر کو بھول کر تدبیر پر پھولنا کفار کی خصلت ہے یونہی تدبیر کو محض عبث و مطرود وفضول و مردود بتانا کسی کھلے گمراہ یا سچے مجنون کا کام ہے جس کی رو سے صدہا آیات و احادیث سے اعراض اور انبیاء و صحابہ وائمہ و اولیاء سب پر طعن و اعتراض لازم آتا ہے۔ حضرات مرسلین صلوات اللہ تعالٰی و سلامہ علیہم اجمعین (اللہ کے درود و سلام ہوں ان سب پر) سے زیادہ کس کا توکل اور ان سے بڑھ کر تقدیر الہٰی پر کس کا ایمان۔ پھر وہ بھی ہمیشہ تدبیر فرماتے اور اس کی راہیں بتاتے اور خود کسب حلال میں سعی کرکے رزقِ طیب کھاتے۔" (فتاوی رضویہ، جلد 29، صفحہ 304، 305، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

مزید فرماتے ہیں: "اگر تدبیر مطلقا مہمل (بیکار) ہو تو دین و شرائع (قوانین شرع) و انزال کتب (کتابیں اتارنا) و ارسال رسل (رسولوں کو بھیجنا) واتیان فرائض (فرائض کا کرنا) و اجتناب محرمات (حرام کاموں سے بچنا) معاذ اللہ! سب فضول و عبث ٹھہریں۔ آدمی کی رسی کاٹ کر بجار (آزاد چھوٹا ہوا سانڈ) کردیں۔ دین ودنیا سب یکبار گی برہم ہو جائیں۔و لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ نہیں نہیں بلکہ تدبیر بیشک مستحسن ہے اور اس کی بہت صورتیں مندوب و مسنون ہیں۔" (فتاوی رضویہ، جلد 29، صفحہ 311، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4399

تاریخ اجراء: 12 جمادی الاولٰی 1447ھ / 04 نومبر 2025ء