
دار الافتاء اہلسنت(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کوئی یوں قسم کھائے کہ میں فلاں کام کروں، تو یہودی ہوجاؤں، اس کا کیا حکم ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مذکورہ بالا الفاظ قسم کے الفا ظ ہیں، یعنی اگر کسی نے ایسا کہا کہ ’’اگر میں فلاں کام کروں تو یہودی ہوجاؤں‘‘ تو حکم یہ ہے کہ اگر وہ کام کرلیتا ہے، تو اس پر قسم توڑنے کا کفارہ لازم آئے گا اور کفر کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس کے خیال میں یہ ہو کہ واقعی ایسا کرنے سے وہ یہودی ہوجائے گا اور یہ سمجھ کر وہ کام کیا تو وہ کافر ہوگیا، اس پر لازم ہے کہ توبہ کرکے نئے سرے سے اسلام لائے اور نکاح ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح بھی کرے، اور اگر جانتا تھا کہ ایسا کرنے سے وہ یہودی نہ ہوگا تو وہ دائرہ اسلام سے خارج تو نہ ہوگا، البتہ وہ گنہگار ہوا اور اس پر قسم کا کفارہ واجب ہے۔
عالمگیری میں ہے:
’’لو قال ان فعل کذ ا فھو یھودی۔۔۔ فھو یمین استحسانا کذا فی البدائع حتی لو فعل ذلک الفعل یلزمہ الکفارۃ و ھل یصیر کافرا اختلف المشایخ فیہ قال شمس الائمۃ السرخسی رحمہ اللہ تعالی و المختار للفتوی انہ ان کان عندہ انہ یکفر متی اتی بھذا الشرط و مع ذلک اتی یصیر کافر لرضاہ بالکفر و ان کان عندہ انہ اذااتی بھذا الشرط لایصیر کافرا لا یکفر‘‘
ترجمہ: اگر کسی نے ایسا کہا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو میں یہودی ہوجاؤں، تو یہ بھی استحساناً یمین ہی ہے، اسی طرح بدائع میں ہے، حتٰی کہ اگر وہ یہ کام کرے تو اس پر کفارہ لازم آئے گا، اور کیا وہ کافر ہوگا؟ اس بارے میں مشائخ کا اختلاف ہے، شمس الائمہ سرخسی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ فتوی کے لئے مختار یہ قول ہے کہ اگر وہ جانتا ہےکہ اس شرط کو بجالینے کی وجہ سے کافر ہوجائے گا اس کے باوجود وہ یہ کام کرلیتا ہے تو وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے کفر پر رضامندی اختیار کرلی اور اگر اس کے ذہن میں یہ تھا کہ اس کام کے کرنے کے باوجود میں کافر نہ ہوں گا تو اب اس کام کے کرنے کی وجہ سے اس پر کفر کا حکم نہیں ہے۔ (فتاوی عالمگیری، جلد 2، صفحہ 54، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاویٰ رضویہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ چند شخص نے مسجد کے اندر کہا کہ جو شخص بیٹی پر روپیہ لے یا قرضدار کے یہاں کھاناکھائے تو کلمہ شریف اور قرآن سے پھرے تو اس کا کاغذ بھی لکھا مگر وہ کاغذ بھی پھاڑڈالا اور وہی کام کرنے لگ گئے ان کے واسطے کیا حکم ہے؟
اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بیٹی پر روپیہ لینا ناجائز ہے اور قرضدار کے یہاں کھانا کھانا اگر قرض کے دباؤ سے ہے تو وہ بھی ناجائز ہے، اور جنہوں نے یہ اقرار کیا تھا کہ جو ایساکرے وہ کلمہ شریف اور قرآن شریف سے پھرے، پھر اس اقرار سے پھر گئے اور وہ کاغذ پھاڑ ڈالا ان میں سے جس کے خیال میں یہ ہو کہ واقعی ایسا کرنے سے قرآن مجید اور کلمہ طیبہ سے پھر جائے گا اور یہ سمجھ کر ایسا کیا وہ کافر ہوگیا اور اس کی عورت نکاح سے نکل گئی نئے سرےسے اسلام لائے، اس کے بعد عورت اگر راضی ہو تو اس سے دوبارہ نکاح کرے ورنہ مسلمان اسے قطعاً چھوڑدیں اس سے سلام وکلام اس کی موت وحیات میں شرکت سب حرام، اور جوجانتا تھا کہ ایسا کرنے سے قرآن مجید یا کلمہ طیبہ سے پھرنا نہ ہوگا وہ گنہگار ہوا اس پر قسم کا کفارہ واجب ہے۔
کقولہ ھو برئ من ﷲ و رسولہ ان فعل کذا
(جیسا کہ وہ یوں کہے اگرایسا کروں تو اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ سے بری ہو جاؤں)۔ (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 578، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر: Web-2092
تاریخ اجراء: 03 رجب المرجب 1446 ھ/04 جنوری 2025 ء