ریا کے خوف سے عمل چھوڑنا بھی رِیا ہے؟

خوفِ ریا سے عمل چھوڑنا بھی ریا ہے، اس کی وضاحت

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ایک جملہ میں نے سنا تھا کہ خوفِ ریا سے ترکِ عمل بھی ریا ہے، اس جملہ کا کیا مطلب ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

لوگوں کی وجہ سے عمل کو چھوڑنا ریا کاری ہے، یہ قول حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کاہے۔

اس کا معنی یہ ہے کہ: انسان عمل کو ترک کر دیتا ہے یہ سوچ کر کہ لوگ اگر اس کے عمل کو دیکھیں گے تو اسے ریا کار کہیں گے تو وہ خود کو ریاکار کہلائے جانے کو نا پسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اسے ریا کار نہ کہیں بلکہ اس کی طرف ہمیشہ اچھی نظر سے دیکھیں، اسے ہمیشہ با اخلاص تصور کریں اور اپنی اس چاہت اور پسند کی وجہ سے وہ عمل کو چھوڑ دیتا ہے تو اب اس کا عمل کو چھوڑنا لوگوں میں خود کو با اخلاص ثابت کرنے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ لوگوں کے ریا کاری میں مبتلا ہونے کے خوف سے۔

اتحاف السادۃالمتقین میں ہے:

و معنی قولہ: ترک العمل الخ ای من حیث یتوھم منھم انھم ینسبونہ بالعمل الی الریاء فیکرہ ھذا النسبۃ و یحب دوام نظرھم لہ بالاخلاص فیکون مرائیا بترکہ محبۃ للدوام نسبۃ الی الاخلاص لا للریاء

یعنی: حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے قول کہ لوگوں کے خوف سےعمل کو ترک کرنا ریاکاری ہے کے معنی یہ ہیں: بندہ یہ گمان کرے کہ اس کے عمل کرنے کی وجہ سے لوگ اس کے اس عمل کو ریاکاری کی طرف منسوب کریں گےتو بندہ اس نسبت کو نا پسند جانے اور اس بات کو پسند کرے کہ لوگ ہمیشہ اس کی طرف اخلاص کی نظر سے دیکھیں پس یہ بندہ ریاکار کہلائے گا کیونکہ اس کا عمل کو چھوڑنا اخلاص کی طرف نسبت کی ہمیشگی کو پسند کرنے کی وجہ سے ہے نہ کہ ریاکاری کی وجہ سے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، جلد 13، صفحہ 105، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: Web-2146

تاریخ اجراء: 27 رجب المرجب 1446ھ / 28 جنوری 2025ء