کیا عمرہ سنت مؤکدہ ہے؟

کیا عمرہ کرنا سنت مؤکدہ ہے ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا عمرہ کرنا سنت مؤکدہ ہے؟ شرعی رہنمائی فرما دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جی ہاں! صاحبِ استطاعت کے لئے زندگی میں ایک بار عمرہ کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور یہی مؤقف صحیح ہے۔

عمرہ کرنا سنت مؤکدہ ہے، جیسا کہ اللباب فی شرح الکتاب اور البحر الرائق میں ہے:

”واللفظ للآخر:العمرة سنة مؤكدة، وهو الصحيح في المذهب“

ترجمہ: عمرہ کرنا، سنت مؤکدہ ہے اور یہی صحیح مؤقف ہے۔ (البحر الرائق، جلد3، صفحہ 63، مطبوعہ دار الكتاب الاسلامی)

علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”العمرۃ سنۃ مؤکدۃ لمن استطاع“

 ترجمہ: صاحبِ استطاعت کے لئے عمرہ کرنا سنت موکدہ ہے۔(فتح باب العنایۃ، جلد1، صفحہ 616، مطبوعہ دار ارقم)

مجمع الانہر میں ہے۔ نیز تنویر الابصار مع درمختار کی عبارت:

”(العمرۃ)فی العمر(مرۃ سنۃ مؤکدۃ) علی المذھب“

 کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں:

”واللفظ للآخر: ای اذا اتی بھا مرۃ فقد اقام السنۃ غیر مقید بوقت غیر ماثبت النھی عنھا فیہ الا انھا فی رمضان افضل“

 ترجمہ: جب عمرہ ایک بار ادا کر لیا، تو سنت ادا ہوگئی، یہ کسی وقت کے ساتھ مقید نہیں سوائے ان اوقات کے جن میں ممانعت ثابت ہے، ہاں عمرہ رمضان میں کرنا افضل ہے۔(ردالمحتار علی الدر المختار، جلد3،صفحہ 545، مطبوعہ بیروت) 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  NRL-0244

تاریخ اجراء20ربیع الآخر 1446 ھ/ 24 اکتوبر 2024ء