
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ کسی کی میت میں جانے کے بعد وضو کرتے ہیں۔ کیا کسی کی میت میں جانے کے بعد وضو کرنا ضروری ہے؟ یہ ایک رواج بن چکا ہے، رہنمائی فرما دیجیے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
کسی کی میت پر جانے کی وجہ سے وضو کرنا شرعاً ضروری نہیں۔ البتہ غسل میت کے بعد وضو کرنا مستحب ہے۔ حدیث پاک کی مشہور کتاب موطا امام مالک میں ہے
أن أسماء بنت عميس امرأة أبي بكر الصديق رضي الله عنه غسلت أبا بكر حين توفي، فخرجت، فسألت من حضرها من المهاجرين، فقالت: إني صائمة، و إن هذا يوم شديد البرد فهل علي من غسل؟ قالوا: لا، قال محمد: و بهذا نأخذ، لا بأس أن تغسل المرأة زوجها إذا توفي، و لا غسل على من غسل الميت و لا وضوء إلا أن يصيبه شيء من ذلك الماء فيغسله
ترجمہ: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے آپ کو غسل دیا، پس باہر آئیں تو موجود مہاجرین میں سے کسی سے پوچھا، کہا کہ آج میرا روزہ ہے اور سردی بھی بہت زیادہ ہے تو کیا مجھ پر غسل کرنا لازم ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا نہیں۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا اسی روایت سے ہم اس بات پر دلیل لاتے ہیں کہ شوہر کے انتقال کے بعد عورت کا شوہر کو غسل دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اور میت کو غسل دینے والے پر وضو اور غسل کرنا لازم نہیں۔ ہاں! اگر غسل دیتے ہوئے کوئی چیز لگ جائے تو اس کو دھولیا جائے۔ (مؤطا امام مالک، ابواب الجنائز، صفحہ 109، المکتبۃ العلمیۃ)
مبسوط سرخسی میں ہے
و لا يجب عليه بتغميض الميت، و غسله، و حمله وضوء، و لا غسل إلا أن يصيب يده، أو جسده شيء فيغسله
ترجمہ: میت کی آنکھیں بند کرنے والے ، میت کو غسل دینے والے اور جنازہ اٹھانے والے پر وضو اور غسل کرنا ضروری نہیں۔ ہاں! اگر غسل دیتے ہوئے اس کے ہاتھ یا بدن کو کوئی چیز لگ جائے تو اس کو دھولیا جائے۔ (المبسوط للسرخسی، باب الوضوء و الغسل، جلد 1، صفحہ 82، دار المعرفۃ، بیروت)
غسل میت کے بعد وضو کرنا مستحب ہے، جیسا کہ فتاوی تاتارخانیہ، فتاوی ہندیہ اور نور الایضاح میں ہے
(و اللفظ للآخر) "الوضوء علی ثلاثۃ اقسام۔۔ الثالث: مندوب۔۔۔ و غسل میت، و حملہ"
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4012
تاریخ اجراء: 16 محرم الحرام 1447ھ / 12 جولائی 2025ء