صبح، شام، دن اور رات کے اذکار کا وقت کیا ہے؟

صبح، شام، دن اور رات کے اذکار کے اوقات

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

شریعت میں صبح، شام، دن اور رات کے اذکار کا وقت کب سے کب تک ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جب اذکار کو "صبح" اور "شام" کے الفاظ سے تعبیر کیا جائے تو ان میں "صبح" سے مراد آدھی رات ڈھلے سے سورج کی پہلی کرن چمکنے تک کا وقت مراد ہوتا ہے، اس سارے وَقفے میں جو کچھ پڑھا جائے اُسے صُبح میں پڑھنا کہیں گے۔

اور شام سے مراد دوپَہَر ڈھلے یعنی ظہر کی نماز کا وقت شروع ہونے سے لے کر غُرُوبِ آفتاب تک کاوقت ہے، اِس پورے وَقفے میں جو کچھ پڑھا جائے اُسے شام میں پڑھنا کہیں گے۔

اور اگر اذکار کو "دن" اور "رات" کے الفاظ سے تعبیر کیا جائے تو ان کا اعتبار ان کے ابتدائی حصے سے ان کے انتہائی حصے تک کیا جائے گا، یعنی ان کی ابتداء سے عمل کا وقت شروع مانا جائے گا، اور ان کی انتہاء پر عمل کا وقت ختم ہونا مانا جائے گا۔

اور فجر کے طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک کے وقت کو دن کہتے ہیں، اور سورج کے غروب ہونے سے لے کر فجر کے طلوع ہونے تک کے وقت کو رات کہتے ہیں۔

صبح و شام کے اذکار کے اوقات کے متعلق فتاوی شامی میں ہے

تدخل أوراد الصباح من نصف الليل الأخير و المساء من الزوال، هذا فيما عبر فيه بهما، و أما إذا عبر باليوم و الليلة فيعتبر ان تحديدا من أولهما، فلو قدم المأمور به فيهما عليه لا يحصل له الموعود به

ترجمہ: صبح کے اذکار کا وقت پچھلی رات کے نصف آخر سے شروع ہو جاتا ہے، اور شام کے اذکار کا وقت زوال(یعنی دوپہر) سے۔ یہ اس صورت میں ہے جب اذکار کو "صبح" اور "شام" کے الفاظ سے تعبیر کیا جائے۔ اور اگر "دن" اور "رات" کے الفاظ استعمال کیے جائیں تو ان کا اعتبار ان کے ابتدائی حصے سے کیا جائے گا، پس اگر کوئی شخص ان دونوں میں سے کسی ایک میں مطلوب عمل کو وقتِ مقررہ سے پہلے انجام دے تو اسے اس کا وعدہ کردہ ثواب حاصل نہ ہوگا۔(رد المحتار، جلد 4، صفحہ 230،دار الفکر بیروت)

"التوقيف على مهمات التعاريف" کتاب میں علامہ عبد الرؤف مناوی علیہ الرحمۃ "دن " کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

النھار: لغۃً: من طلوع الفجر الی الغروب

ترجمہ: دن: لغوی اعتبار سے فجر کے طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک کے وقت کو کہتے ہیں۔ (التوقيف على مهمات التعاريف،صفحہ 331، مطبوعہ: قاھرۃ)

اور "رات" کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اللیل: من غروب الشمس الی طلوع الفجر

ترجمہ: رات: سورج کے غروب ہونے سے لے کر فجر کے طلوع ہونے تک کے وقت کو کہتے ہیں۔ (التوقيف على مهمات التعاريف، صفحہ 293، مطبوعہ: قاھرۃ)

الوظیفۃ الکریمۃ میں ہے "آدھی رات ڈھلے سے سورج کی کرن چمکنے تک صبح ہے، اس بیچ میں جس وقت ان دعاؤں کو پڑھ لے گا صبح میں پڑھنا ہوگیا، یوں ہی دو پہر ڈھلنے سے غروبِ آفتاب تک شام ہے۔" (الوظیفۃ الکریمۃ از امام احمد رضا، صفحہ 12، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4009

تاریخ اجراء: 14 محرم الحرام 1447ھ / 10 جولائی 2025ء