
دار الافتاء اہلسنت(دعوت اسلامی)
سوال
علم کا بالذات سیکھنا فرض ہے یا عمل کے واسطے فرض ہے؟ اگر کسی کو نماز کے فرائض کا علم نہیں ہے مگر نماز کے فرائض صحیح ادا ہورہے ہیں، تو کیا وہ فرائض نماز نہ سیکھنے کے سبب گناہگار ہوگا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جس طرح فرض اعمال پر عمل کرنا فرض ہے، اسی طرح ان فرائض کا علم حاصل کرنا بھی الگ سے بالذات فرض ہے، یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ بندہ مثلا نماز کی صحیح ادائیگی کا علم حاصل نہ کرے اور اسی پر اکتفاء کرے کہ میری نماز لوگوں کےمطابق ہے، اور اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، اس شخص کے لئے جو صحیح نماز تو پڑھتا ہو اور فرض نماز کا علم نہ سیکھا ہو ، تب بھی اس پر فرض نماز کا علم حاصل کرنا فرض ہی رہے گا تاکہ نماز میں کوئی غلطی ہونے کی صورت میں اس کا حل معلوم ہو۔
مشکوٰۃ المصابیح میں بحوالہ ابن ماجہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا:
”طلب العلم فريضة على كل مسلم“
یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(مشکوۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح، جلد 1، صفحہ 434، مطبوعہ: بیروت(
اعلىٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے متعلق مختصر اور جامع کلام کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”(یہ حدیث)بوجہ کثرتِ طرق وتعدّدِ مخارج حدیثِ حسن ہے، اس کا صریح مفاد ہرمسلمان مردوعورت پر طلبِ علم کی فرضیت، تو یہ صادق نہ آئے گا مگر اس علم پر جس کا تعلم فرضِ عین ہو ،اور فرضِ عین نہیں مگر ان علوم کا سیکھنا جن کی طرف انسان بالفعل اپنے دین میں محتاج ہو، ان کا اعم واشمل واعلیٰ واکمل واہم واجل علم اصولِ عقائد ہے جن کے اعتقاد سے آدمی مسلمان سنّی المذہب ہوتاہے اور انکارومخالفت سے کافر یا بدعتی، و العیاذ باﷲ تعالیٰ۔ سب میں پہلا فرض آدمی پر اسی کا تعلم ہے اور اس کی طرف احتیاج میں سب یکساں۔ پھر علمِ مسائلِ نماز یعنی اس کے فرائض وشرائط و مفسدات جن کے جاننے سے نماز صحیح طور پر ادا کرسکے، پھر جب رمضان آئے تو مسائلِ صوم، مالکِ نصاب نامی ہو تو مسائلِ زکوٰۃ، صاحبِ استطاعت ہو تو مسائلِ حج، نکاح کیاچاہے تو اس کے متعلق ضروری مسئلے، تاجر ہو تو مسائلِ بیع و شراء، مزارع پرمسائلِ زراعت، موجر و مستاجر پر مسائلِ اجارہ، و علیٰ ہٰذا القیاس۔ ہر اس شخص پر اس کی حالتِ موجودہ کے مسئلے سیکھنا فرضِ عین ہے اور انہیں میں سے ہیں مسائلِ حلال و حرام کہ ہرفردبشر ان کا محتاج ہے اور مسائلِ علمِ قلب یعنی فرائضِ قلبیہ مثل تواضع و اخلاص و توکل و غیرہا اور ان کے طرقِ تحصیل اور محرماتِ باطنیہ تکبر و ریا و عُجب و حسد و غیرہا اور اُن کے معالجات کہ ان کا علم بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے جس طرح بے نماز فاسق وفاجر ومرتکبِ کبائر ہے، یونہی بعینہٖ ریاء سے نماز پڑھنے والا انہیں مصیبتوں میں گرفتارہے۔ نسئل ﷲ العفو و العافیۃ۔ تو صرف یہی علوم حدیث میں مراد ہیں وبس۔“ (فتاوىٰ رضویہ، جلد23، صفحہ 623/624 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر: Web-2093
تاریخ اجراء: 05 رجب المرجب 1446 ھ/ 06 جنوری 2025 ء