جنت البقیع سے مٹی بطورِ تبرک لانا کیسا؟

جنت البقیع سے کچھ مٹی اٹھا کر اپنے وطن لانا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

جنت البقیع سے کچھ مٹی بطورِ تبرک اپنے وطن لانا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

تبرک کی نیت سے جنت البقیع، مدینے شریف کی مٹی لانے اور گھرمیں رکھنے پر گناہ تو نہیں ہے تاہم! بہتر یہ ہے کہ مدینہ شریف کی مٹی وغیرہ کومدینہ شریف سے جدا نہ کیا جائے۔

شیخ طریقت، امیراہلسنت دامت برکاتہم العالیہ اس طرح کے سوال کے جواب میں ارشادفرماتے ہیں: ”بطور تبرک خاک مدینہ وطن میں لانا، جائز ہے مگر مشورۃً عرض ہے کہ نہ لائی جائے۔ خاتم المحدثین حضرت سیدنا شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: اکثر علما کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما کی خاک، اینٹ، ٹھیکری اور پتھر نہ اٹھائے۔ علمائے حنفیہ اور بعض شافعیہ رحمهم اللہ تعالیٰ جائز بھی کہتے ہیں۔ بہر صورت اگر تحفہ (مثل کچل و پانی وغیرہ) جس سے اہل وطن کو خوشی ہو بے تکلف ہمراہ لے تو بہتر ہے۔ سفر سے اہل و عیال کے لیے تحفہ لانا صحیح خبر وں (یعنی حدیثوں سے ثابت ہے۔ مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما کی خاک، اینٹ، ٹھیکری اور پتھر وغیرہ نہ اٹھانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں بھی سرور کائنات، شاہ موجودات صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم سے محبت کرتی ہیں بلکہ ہر مقدس مقام سے نسبت رکھنے والے کنکر و پتھر وغیرہ اس مقام سے جدا ہونا گوارا نہیں کرتے جیسا کہ حنفیوں کے عظیم پیشوا حضرت سید نا علامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: جمادات ( پتھر اور پہاڑ وغیرہ) کے انبیائے کرام عليهم الصلوة و السلام، اولیائے عظام رحمهم الله السلام اور اللہ عزوجل کے مطیع و فرمانبردار بندوں سے محبت کرنے کے وصف (یعنی خوبی) کا انکار نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ کھجور کا تنا سر کار عالی و قار صل الله تعالی علیہ و آلہ و سلم کے فراق (یعنی جدائی میں رویا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کے رونے کی آواز بھی سنی۔ اسی طرح مکہ مکرمہ زادھااللہ شرفا و تعظیما کا ایک پتھر سرکار علیہ الصلوۃ السلام پر وحی نازل ہونے سے پہلے سلام پیش کیا کر تا تھا۔ حضرت سید نا علامہ طیبی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: احد پہاڑ اور مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیماکے تمام اجزاء سرکار علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کرتے ہیں اور آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام سے جدا ہونے کی صورت میں آپ کی ملاقات کے لیے گریہ کرتے ہیں یہ ایسی بات ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا جائز ہونے کے باوجو د مقاماتِ مقدسہ کی خاک اور کنکر وغیرہ تبرکات نہ اٹھائے جائیں یہی بہتر ہے۔ (سفر مدینہ کے متعلق سوال جواب، صفحہ 2 تا 4، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-2100

تاریخ اجراء: 01 رجب المرجب 1446 ھ/ 02 جنوری 2025 ء