
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
داڑھی کہاں سے کہاں تک ہوتی ہے اور چہرے و گردن کے بال کہاں کہاں سے صاف کر سکتے ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
چہرے کی لمبائی میں قلموں کے نیچے سے کنپٹیوں، جبڑوں اور ٹھوڑی پر جمنے والے بال، جبکہ چوڑائی میں کانوں اور گالوں کے بیچ بالائی حصے کے بال ’’داڑھی‘‘ ہے، اس میں سے ایک مشت پوری ہونے سے پہلے تھوڑا یا زیادہ کاٹنا، ناجائز و گناہ ہے۔ البتہ ٹھوڑی سے نیچے گلے کے بال چونکہ داڑھی کا حصہ نہیں ہیں، لہٰذا شرعاً ان کا کاٹنا یا مونڈانا تو جائز ہے، تاہم بہتر یہ ہے کہ نہ کاٹے، نہ مونڈوائے جائیں۔ یونہی گردن کے بال مونڈانے کو بھی چونکہ علمائے کرام نے ناپسند فرمایا، لہٰذا نہیں بھی کاٹنے، مونڈوانے سے بچنا چاہیئے۔ ہاں! اگر پورے سر کے بال بھی مونڈوائے تو ساتھ گردن کے بال بھی مونڈائے جاسکتے ہیں۔
داڑھی کی حدِ شرعی بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت، الشاہ امام احمدرضا خان نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”داڑھی قلموں کے نیچے سے کنپٹیوں، جبڑوں، ٹھوڑی پر جمتی ہے اور عرضاً اس کا بالائی حصہ کانوں اور گالوں کے بیچ میں ہوتا ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 22، صفحہ 595، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے: ”بہتر یہ ہے کہ گلے کے بال نہ مونڈائے انہیں چھوڑ رکھے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 585، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اسی میں ہے: ”گردن کے بال مونڈنا مکروہ ہے۔یعنی جب سر کے بال نہ مونڈائیں صرف گردن ہی کے مونڈائیں، جیسا کہ بہت سے لوگ خط بنوانے میں گردن کے بال بھی مونڈاتے ہیں اور اگر پورے سر کے بال مونڈا دیے تو اس کے ساتھ گردن کے بال بھی مونڈا دیے جائیں۔“ (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 587، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر: Web-2106
تاریخ اجراء: 10 رجب المرجب 1446 ھ/ 11 جنوری 2025 ء