سامری جادوگر کون تھا؟ دلچسپ مضمون

سامری جادوگر کون تھا؟

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3751

تاریخ اجراء: 20 شوال المکرم 1446 ھ/19 اپریل 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوہِ طور پر جانے کے بعد جس نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا میں لگایا تھا اس کا نام کیا تھا؟ اور وہ انسان تھا یا جن؟ اور اسے مسلمان یا کافر، کیا کہا جائے گا؟ اور اس کے کچھ حالات بھی بتادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   اس شخص کا اصل نام موسیٰ بن ظفر تھا، یہ "سامرہ "قبیلے سے تھا، جس کی وجہ سے اسے سامری کہاجاتاتھا، اور یہ انسان ہی تھا، جب بنی اسرائیل کے ساتھ اس نے دریا عبور کیا تو اس کے بعد یہ منافق ہوگیا اور اس نےحضرت سیدنا موسی علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کے کوہ طورپرجانے کے بعد زیورات سے بچھڑابنایااوراسے لوگوں کا معبود قرار دے کر لوگوں کو اس کی پوجا پر لگادیا، اس وجہ سے حضرت  موسیٰ(علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام) نے اس سے فرمایا: "جا! اب پوری زندگی تویہ کہتارہے گاکہ مجھ سے نہ چھوجانا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ لوگوں سے  چیخ چیخ کرکہتا پھرتا تھا کہ: مجھ سے کوئی نہ چھوجائے۔ اور اگر وہ کسی کوچھوجاتاتھایاکوئی اس سے چھوجاتاتھاتودونوں کوسخت بخار ہوجاتا تھا، اس وجہ سے وہ لوگوں سے بچ کر رہتا تھا اورلوگ اس سے بچ کررہتے تھے، اس کے ساتھ بات چیت، ملاقات، لین دین وغیرہ سارے معاملات دشوارہوگئے تھے، لہذا اس کے لیے آبادی میں رہنا دوبھر ہوگیا تھا، پس وہ جنگل کی طرف نکل گیا،اورجنگل میں تن تنہاوحشی جانوروں اوردرندوں کے ساتھ سرگرداں  رہنے لگا اوراسی حالت میں مرگیا۔

   قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے:

   (قَالُوْا مَاۤ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَ لٰكِنَّا حُمِّلْنَاۤ اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَى السَّامِرِیُّۙ(۸۷) فَاَخْرَ جَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا هٰذَاۤ اِلٰهُكُمْ وَ اِلٰهُ مُوْسٰى۬-فَنَسِیَؕ(۸۸))

   ترجمہ کنزالایمان: بولے ہم نے آپ کا وعدہ اپنے اختیار سے خلاف نہ کیا لیکن ہم سے کچھ بوجھ اٹھوائے گئے اس قوم کے گہنے کے تو ہم نے انہیں ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے ڈالا۔  تو اُس نے اُن کے لیے ایک بچھڑا نکالا بے جان کا دھڑ گائے کی طرح بولتا تو بولےیہ ہے تمہارا معبود اور موسیٰ کا معبود موسیٰ تو بھول گئے۔(سورہ طہ، پ 16، آیات: 87 ،88)

   اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:

   ﴿قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِی الْحَیٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ

   ترجمہ کنز الایمان: کہا تو چلتا بن کہ دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہ ہے کہ  تو کہے چھو نہ جا۔ (پارہ 16، سورہ طہ، آیت 97)

   تفسیر جلالین میں ہے

   ”و إذا مس أحدا أو مسه أحد حما جميعا“

   ترجمہ: سامری جب کسی کو چھوتا یا کوئی اسے چھوتا تو دونوں بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ (تفسیر جلالین، ص 415، دار الحديث، القاهرة)

   تفسیر طبری میں ہے

   ”كان اسم السامري موسى بن ظفر“

   ترجمہ: سامری کا نام موسی بن ظفر تھا۔ (تفسیر الطبری، ج 2، ص 67، مؤسسة الرسالة)

   تفسیر القرآن العزیز لابن ابی زمنین (متوفی 399 ھ)میں ہے

   ” قال قتادة: و كان السامري من عظماء بني إسرائيل، من قبيلة يقال لها: سامرة، و لكن نافق بعدما قطع البحر مع بني إسرائيل“

   ترجمہ: حضرت قتادہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ  نے فرمایا: سامری بنی اسرائیل کے معظم لوگوں میں سے تھا، "سامرہ" نامی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا، لیکن جب اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ دریا عبور کیا تو اس کے بعد یہ منافق ہو گیا۔ (تفسیر القرآن العزیز، ج 3، ص 125، مطبوعہ: مصر)

   تفسیر روح البیان میں ہے

   " روى انه كان إذا ماس أحدا ذكرا او أنثى حم الماس و الممسوس جميعا حمى شديدة فتحامى الناس و تحاموه و كان يصيح بأقصى صوته لا مساس و حرم عليهم ملاقاته و مواجهته و مكالمته و مبايعته و غيرها مما يعتاد جريانه فيما بين الناس من المعاملات فصار وحيدا طريدا يهيم فى البرية مع الوحش و السباع"

   ترجمہ: مروی ہے کہ سامری جب کسی بھی مرد یا عورت کو چھوتا تو چھونے والے اور جسے چھواگیا، دونوں کو شدید بخار ہوجاتا، پس وہ لوگوں سے بچ کررہتااورلوگ اس سے بچ کررہتے اور وہ اونچی آواز میں چیخ چیخ کرکہتا تھا کہ مجھ سے چھو نہ جانا، اور لوگ اس سے ملاقات  کرنے، اس کا سامنا کرنے، بات چیت  کرنے، خرید و فروخت کرنے  اور دیگر وہ تمام  معاملات  کرنے سے محروم ہوگئے جو عام طور پر لوگوں میں ہوتے ہیں، پس وہ  دھتکارا ہوا، تنہا رہ گیا اور جنگل میں وحشی جانوروں اور درندوں کے ساتھ  سرگرداں رہنے لگا۔ (روح البیان، ج 5، ص 421 ،422، دار الفكر، بيروت)

   تفسیر مظہری میں ہے

   ”قال له موسى فاذهب  فإن لك في الحياة الدنيا مادمت حيا عقوبة من الله على ما فعلت أن تقول لكل من رايته لا مساس  يعنى لا تمسنى و لا تقربنى. قلت لعل ذلك لاجل وحشة القى الله تعالى في قلبه فكان لا يستانس من أحد و قيل كان إذا مس أحدا او مسه أحد حما جميعا و لذلك كان يقول ذلك- فكان في البرية طريدا وحيدا كالوحشى النافر حتى مات“

   ترجمہ: حضرت موسی  علی نبینا و علیہ الصلوۃ السلام نے سامری سے فرمایا: جو تونے کیااس پر اللہ تعالی کی طرف سے سزا  یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں جب تک تو زندہ ہے، جسے بھی تو دیکھے گا، اس سے کہے گا چھو نہ جا، یعنی مجھ سے نہ چھونا نہ میرے قریب آنا۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی وجہ  شاید وہ وحشت ہے جو اللہ عزوجل نے اس کے دل میں ڈال دی تھی تو وہ کسی سے مانوس نہیں ہوتا تھا، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب وہ کسی کو چھوتا یا کوئی اسے چھوتا تو دونوں کو بخار ہو جاتا، اسی لئے وہ یوں کہا کرتا تھا، پس وہ جنگل میں بھاگنے والے وحشی جانور کی طرح  دھتکارا ہوا اکیلا رہ گیا حتی کہ مر گیا۔ (تفسیر مظہری، ج 6، ص 160، مطبوعہ: لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم