اخراجات کی شرط کے ساتھ ڈرائیور کو گاڑی کرائے پر دینا کیسا؟

اخراجات کی شرط کے ساتھ ڈرائیور کو گاڑی کرائے پر دینا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:AQS-2675

تاریخ اجراء:13 ربیع الاول  1446ھ/18 ستمبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں کسی کو گاڑی کرائے پر دینا چاہتا ہوں، جس کا طریقہ یہ ہو گا کہ ماہانہ دس ہزار کرایہ فکس کر دوں گا اور اس کے ساتھ یہ طے کروں گا کہ گاڑی میں نکلنے والے کسی بھی کام کی ذمہ داری و اخراجات میرے اوپر لازم نہیں ہوں گے ، بلکہ سب خرچے ڈرائیور خود کرے گا۔ کیا میں اس طرح گاڑی کرائے پر دے سکتا ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں ڈرائیور پر ان اخراجات کی شرط لگانا خلافِ شرع اور ناجائز ہے، لہٰذا اس شرط کے ساتھ گاڑی کرایے پر دینا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ گاڑی کے مالک آپ ہیں، اس میں نکلنے والے سب اخراجات آپ ہی کے ذمے ہوں گے۔ لہٰذا جسے بھی گاڑی کرائے پر دیں، تو اس کے ساتھ کرایہ اور یہ کہ وہ اس گاڑی سے کیا کام کرے گا اور کرائے کی مدت طے کر لیں کہ کتنے عرصے کے لیے گاڑی اسے دے رہے ہیں اور خلافِ شرع ایسی کوئی شرط نہ لگائیں کہ اگر کرائے کی مدت کے دوران اس گاڑی میں کسی قسم کی خرابی یا حادثے کی وجہ سے  کوئی نقصان ہو گیا، تو اس کا خرچہ کرایہ دار پر لازم ہو گا، کیونکہ ناجائز شرط کی وجہ سے کرائے کا یہ عقد (سودا) فاسد و ناجائز ہو جائے گا۔

   جانور یا سواری کو کرائے کے لیے دینا جائز ہے۔ چنانچہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے :”تصح (اجارۃ الدابۃ للرکوب والحمل)“ ترجمہ: جانور (یا سواری) کو سوار ہونے اور بوجھ لادنے کے لیے کرائے پر لینا جائز ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار، ج9، ص55، مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”چوپایہ، اونٹ، گھوڑا، گدھا، خچر، بیل، بھینسا وغیرہ ان جانوروں کو کرایہ پر لے سکتے ہیں،خواہ سواری کے لیے کرایہ پر لیں یا بوجھ لادنے کے لیے۔“(بھارِ شریعت، حصہ14، ج3، ص128، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اجارے کی شرائط سے متعلق تنویر الابصار و در مختار میں ہے :”شرطھا کون الاجرۃ والمنفعۃ معلومتین۔۔۔  (ویعلم النفع ببیان المدۃ۔۔۔ والعمل)۔۔۔ فیشترط فی استئجار الدابۃ للرکوب بیان الوقت  او الموضع، فلو خلا عنھما فھی فاسدۃ، ملخصا“ ترجمہ: اجارے کی شرائط یہ ہیں: اجرت اور منفعت دونوں معلوم ہوں اور نفع وقت اور کام بیان کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے، لہٰذا جانور کو سواری کے لیے کرایے پر لینے میں شرط ہے کہ وقت یا جگہ بتا دی جائے، اگر یہ دونوں نہ بتائیں، تو اجارہ فاسد ہو گا۔(الدر المختار مع رد المحتار، ج9، ص9۔17، مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ” اجارہ کے شرائط یہ ہیں : اجرت کا معلوم ہونا ۔ منفعت کا معلوم ہونا ۔۔۔ جہاں اجارہ کا تعلق وقت سے ہو، وہاں مدت بیان کرنا ، مثلا ۔۔۔ جانور کرائے پر لیا، اس میں وقت بیان کرنا ہو گا۔۔۔ اور کام بھی بیان کرنا ہو گا کہ اس سے کون سا کام لیا جائے گا،مثلاً: بوجھ لادنے کے لیے یا سواری کے لیے۔۔۔ اجارہ میں ایسی شرط نہ ہو ، جو مقتضائے عقد (سودے کے تقاضے) کے خلاف ہو ۔ ملخصا“(بھارِ شریعت، حصہ14، ج3، ص108،109، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   کرائے کی چیز میں نکلنے والے اخراجات کرایہ دار کے ذمے لگانے سے عقد فاسد ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے : ” (تفسد الاجارۃ بالشروط المخالفۃ لمقتضی العقد) ۔۔۔ کشرط طعام عبد و علف دابۃ ومرمۃ دار او مغارمھا ، ملخصا “ ترجمہ : مقتضیٔ عقد کے خلاف شرطوں سے اجارہ فاسد ہو جاتا ہے ، جیسا کہ غلام کے کھانے اور جانور کے چارے اور مکان کی مرمت یا اس کے ٹیکس کی شرط (کرایہ دار پر لگانے سے اجارہ فاسد ہو جائے گا)۔(الدر المختار مع رد المحتار، ج9، ص77۔78، مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”جانور کرایہ پر لیا اور یہ شرط ہے کہ اس کو دانہ گھاس مستاجر (کرایہ دار) دے گا، یہ اجارہ فاسد ہے کہ جانور کا چارہ مالک کے ذمہ ہے اور مستاجر کے ذمہ کرنا مقتضائے عقد کے خلاف ہے۔ یوہیں مکان کرایہ پر دیا اور شرط یہ ہے کہ اس کی مرمت مستاجر کے ذمہ ہے یا مکان کا ٹیکس مستاجر کے ذمہ ہے، یہ اجارہ بھی فاسد ہے کہ ان چیزوں کا تعلق مالک سے ہے،  مستاجر کے ذمہ شرط کرنا مقتضائے عقد کے خلاف ہے۔“(بھارِ شریعت، حصہ14، ج3، ص142، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم