کلائنٹ بھیجنے پر کمیشن یا ریفرل فیس لینا کیسا؟

کلائنٹ بھیجنے پر کمیشن لینا کیسا؟

مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-2042

تاریخ اجراء:13 جمادی الاخریٰ 1446 ھ/16 دسمبر 2024 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا ایک گرافک ڈیزائنر دوست ہے، اس کے ساتھ میری یہ سیٹنگ بنی ہوئی ہے کہ میں اس کو جو بھی کلائنٹس بھیجتا ہوں، تو اس کے بدلے وہ مجھے ریفرل فیس دیتا ہے۔ کیا یہ فیس لینا میرے لئے جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   اگر آپ نے دوست سے پہلے سے طے کیا ہوا ہے کہ میں کلائنٹ لاؤں گا اور اس کی اتنی اجرت لوں گا اور پھر آپ کلائنٹ لانے کے لیے عرف کے مطابق محنت کریں، اپنا وقت صَرف کریں، یعنی کلائنٹ کے ساتھ چل کر جائیں، اس کام کے لیے باقاعدہ وقت دیں  جیسے عموماً بروکرز باقاعدہ کام کرتے وقت دیتے ہیں، محنت اور بھاگ دوڑ کرتے ہیں، تو آپ اپنی محنت کے عوض اجرتِ مثل یا پہلے سے مقرر کردہ (اجرتِ مثل سے کم ) اجرت  لے سکتے ہیں۔ اجرت مثل سے مراد اتنی اجرت ہے جو وہاں اس طرح کے کام کی دینا رائج ہو۔

   لیکن اگر آپ دونوں کے درمیان پہلے سے کمیشن کا لینا دینا طے نہ ہو یا طے تو ہو مگر  آپ نے کوئی محنت نہیں کی بلکہ بیٹھے  بٹھائے کسٹمر کو دوست کی طرف ریفر کر دیا جیسے کسی نے آپ سے کہا کہ مجھے فلاں کام کروانا  ہے آپ نے کہہ دیا کہ فلاں جگہ چلے جاؤ تو محض ریفر کرنے پرمعاوضہ یا کمیشن لینا درست نہیں کیونکہ محض زبانی جمع خرچ کو فقہاء  کرام نےاس مسئلہ میں قابلِ معاوضہ کام میں شمار نہیں کیا۔

   جیساکہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن  لکھتے ہیں: ”اجرت آنے جانے، محنت کرنے کی ہوتی ہے، نہ بیٹھے بٹھائے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے،  مشورہ دینے کی۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد19، صفحہ 453، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم