Kirayedar Dukan Istemal Na Kare To Kya Kiraya Dena Hoga?

دکان سپرد کرنے کے بعد کرائے دار استعمال نہ کر ے، تو کرایہ  لازم ہوگا؟

مجیب:مفتی  محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9140

تاریخ اجراء:17 ربیع الثانی 1446ھ / 21 اکتوبر   2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ میری شہر سے باہر دیہات میں چند دُکانیں ہیں۔ ان میں سے ایک دکان اگست کے مہینے میں ایک شخص کو کرائے پر دینے کا معاہدہ ہوا کہ سات ہزار ماہانہ کرائے پر تمہیں دکان دوں گا۔ ستمبر شروع ہونے سے دو دن پہلے صفائی وغیرہ کروا کر میں نے اسے دکان کی چابیاں سپرد کر دیں۔ ابھی اکتوبر میں جب میں اس سے اور دیگر کرائے داروں سے ستمبر کا کرایہ وصول کرنے گیا، تو اس نے کہا کہ میں نے دکان کا استعمال 20 ستمبر سے شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے دکان نہیں کھولی، کیونکہ جو مال رکھنا تھا، وہ لیٹ ہو گیا تھا۔ یعنی ستمبر کے صرف 10 دن دکان استعمال ہوئی ہے، لہذا میں 10 دن کے حساب سے کرایہ دوں گا۔ اِس پر ہماری کافی بحث ہوئی ہے کہ جب ایگریمنٹ ہو گیا اور چابیاں وغیرہ سب سپرد کر دیں تو پھر کھولنا نہ کھولنا تو تمہاری اپنی مرضی تھی۔ میری شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں کرائے کی وصولی کا حق دار ہوں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر کوئی شخص دُکان کو کرائے پر دینے کے شرعی تقاضے پورے کرتے ہوئے کرائے پر دیدے، نیز مالکِ دکان اپنا یا دوسرے کاسامان وغیرہ موجود ہونے کی صورت میں اُسے نکلوا کر دکان سو فیصد کرائے دار کے حوالے کر  دے، تو ایسی صورت میں  کرائے دار اُس دکان کو استعمال کرے یا نہ کرے، بہر صورت مہینا یا جو کرائے کی مدت متعین ہوئی تھی، اُس کے گزرنے سے اُس دکان کی اجرت کرائے دار پر لازم ہو جائے گی، کیونکہ کرائے پر دی جانے والی چیز کو حصولِ نفع کے لیے سو فیصد کرائے دار کے حوالے کر دینا   ہی اجرت لازم ہونے کےلیے کافی ہوتا ہے، اب خواہ کرائے دار اُس چیز  کو استعمال کرے یا نہ کرے، یہ اُس کی اپنی مرضی پر موقوف ہے، لہذا جب مالک دکان کی طرف سے چابیاں وغیرہ دے کر دکان کو اُس کے سپرد کر دیا گیا اور دکان استعمال کرنے سے کوئی چیز رکاوٹ بھی نہیں، تو اب ایک ماہ گزرنے پر مالکِ دکان اپنی دکان کے کرائے کا شرعاً حق دار ہے۔

   فقہ حنفی کے معروف متن”المختار“میں علامہ مَجْدالدین موصلی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 683ھ / 1284ء) نے ضابطہ لکھا: ”واذاتسلم العین المستاجرۃ فعلیہ الاجرۃ وان لم ینتفع بھا“ترجمہ: جب کرائے والی چیز کو حوالے کر دیا، تو کرائے دار پر اجرت لازم ہو جائے گی، خواہ و ہ اُس چیز سے نفع نہ اٹھائے۔(الاختیار  لتعلیل المختار، جلد02، صفحہ55، مطبوعہ  دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

   اِس ضابطہ کی تفریع بیان کرتے ہوئے فتاوٰی عالَم گیری میں ہے: ”تسليم المفتاح في المصر مع التخلية بينه وبين الدار تسليم للدار حتى تجب الأجرة بمضي المدة، وإن لم يسكن“ ترجمہ: شہر میں مکان کو خالی کر کے چابیوں کو حوالے کر دینا، مکان حوالے کرنا ہی ہے، یہاں تک کہ مدت گزرنے کے ساتھ اُس گھر کی اجرت لازم ہوجائے گی، خواہ وہ کرائے دار اُس مکان میں نہ رہے۔(الفتاوى الھندیہ، جلد04، صفحہ438،مطبوعہ کوئٹہ)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:” منفعت حاصل کرنے پر قادر ہونے سے اُجرت واجب ہوجاتی ہے، اگرچہ منفعت حاصل نہ کی ہو۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاًمکان کرایہ دار کو سپرد کردیا جائے،  اِس طرح کہ مالک مکان کے متاع وسامان سے خالی ہواور اُس میں رہنے سے کو ئی مانع نہ ہو،  نہ اُس کی جانب سے،  نہ اجنبی کی جانب سے،  اِس صورت میں اگر وہ نہ رہے اور بیکار مکان کو خالی چھوڑ دے،  تو اُجرت واجب ہوگی۔(بھار شریعت، جلد03، حصہ14، صفحہ111، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم