
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
كَثَّرَ اللّٰهُ مَالَكَ، وَ وَلَدَكَ، وَ اَصَحَّ جِسْمَكَ، وَ اَطَالَ عُمُرَكَ
اللہ تمہارے مال اور تمہاری اولادمیں اضافہ فرمائے، اور تمہارے جسم کو تندرست رکھے اور تمہاری عمر دراز فرمائے۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث مبارک ہے:
جاء يهودي إلى النبي عليه السلام، فقال: ادع اللہ لي، فقال: كَثَّرَ اللّٰهُ مَالَكَ، وَ وَلَدَكَ، وَ اَصَحَّ جِسْمَكَ، وَ اَطَالَ عُمُرَكَ
ترجمہ: ایک یہودی نبی اکرم علیہ السلام کی خدمت میں حا ضر ہو ااور عرض کرنے لگا کہ آپ اللہ سے میرے لیے دعا کیجئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ (اوپر ذکر کردہ دعا) پڑھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 5، صفحہ 255، رقم الحدیث: 25824، مطبوعہ مکتبۃ الرشد، رياض)
سراج المنیر شرح جامع الصغیر میں ہے:
عن ابن عباس (إذا دعوتم لأحد من اليهود و النصارى) أي أردتم الدعاء له (فقولوا أكثر اللہ مالك) لأن المال قد ينفعنا بجزيته أو موته بلا وارث (و ولدك) لأنهم قد يسلمون أو نأخذ جزيتهم أو نسترقهم بشرطه و إن ماتوا كفار فيهم فداؤنا من النار و يجوز الدعاء له بنحو عافية لا مغفرة قال العلقمی فيه أي هذا الحديث جواز الدعاء للذمی بتكثير المال و الولد و مثله الهداية و صحة البدن والعافية ونحو ذلك
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سےمروی ہے کہ تم جب کسی یہودی یا عیسائی کو دعا دینے کا ارادہ کرو،تو کہو کہ اللہ کریم تیرا مال زیادہ کرے، کیونکہ اس کے مال سے جزئیہ کے ذریعے یا اس کے بغیر وارث مرنے سے ہمیں نفع پہنچے گا اور اس کے لیے اولاد کی کثرت کی دعا کرو، کیونکہ ممکن ہے کہ ان کی اولاد اسلام قبول کرلے، یا ہمیں جِزئیہ دے، یا جنگ میں ہم انہیں قید کر کے غلام بنا لیں۔ اور اگر وہ کفر پر ہی مریں، تو ہمارے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اور مغفرت کی دعا کے علاوہ کفار کے لیے صحت و عافیت وغیرہ کی دعا کرنا، جائز ہے۔ امام علقمی کہتے ہیں کہ یہ حدیث ذمی کے لیے مال، اولاد، ہدایت، صحت اور عافیت کی دعا کرنے کے جواز پر دلیل ہے۔ (السراج المنير شرح الجامع الصغير، جلد 1، صفحہ 127- 128، مطبوعہ دار النوادر)
فتاوی شامی اور محیط برہانی میں ہے،
و اللفظ للآخر: ”قال لذمی اطال اللہ بقاءک ان کان نیتہ ان اللہ یطیل بقاءہ لیسلم او یؤدی الجزیۃ عن ذل و وصغار فلا بأس بہ“
ترجمہ: (اگر) کسی نے ذمی کو کہا: اللہ تبارک و تعالی تمہاری زندگی لمبی کرے، اگر اس کی نیت یہ ہو کہ اللہ تبارک و تعالی اس کی زندگی اس لیے لمبی کرے تاکہ یہ اسلام لے آئے یا یہ ذلیل و خوار ہو کر جزیہ دیتا رہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔(محیط برھانی، کتاب الاستحسان و الکراہیۃ، جلد 5، صفحہ 366، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)