
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَ مِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ
اے اللہ! بے شک میں تیری پناہ مانگتا ہوں، جہنم کےعذاب سے ، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کی آزمائش سے اور مسیح دجال کے فتنے کے شر سے۔
صحیح مسلم کی حدیث مبارک میں ہے:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: اذا تشہد احدکم فلیستعذ بااللہ من اربع یقول:اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،وَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ،وَ مِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی تشہد سے فارغ ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے چار چیزوں (جو اوپر دعا میں ذکر کی گئی ہیں) سے پناہ طلب کرے۔ (صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 412، رقم الحدیث: 588، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
نوٹ: قعدہ اخیرہ میں درود پاک کے بعد ایک سے زیادہ دعائیں پڑھ سکتے ہیں، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے ایک سے زیادہ دعائیں پڑھنا ثابت ہے، لیکن جو دعائیں پڑھی جائیں ان میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ وہ دعائیں ماثورہ یعنی قرآن و حدیث سے منقول ہوں، نیز اگر کوئی شخص امام ہو تو اُسے اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ زیادہ طویل دعائیں نہ کرے خصوصا جبکہ اس کی وجہ سے مقتدیوں کو تکلیف ہو، کیونکہ حدیث پاک میں بیماروں، کمزوروں اور بوڑھے مقتدیوں کی رعایت کی وجہ سے امام کو نماز میں تخفیف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا كَثِيْرًا، وَّ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ، فَاغْفِرْ لِیْ مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ، وَ ارْحَمْنِیْ، اِنَّكَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ
اے اللہ! بے شک میں نے اپنی جان پر بہت ہی زیادہ ظلم کیا اور گناہوں کو تیرے علاوہ کوئی معاف فرمانے والا نہیں۔ پس تُو مجھے اپنی طرف سے بخشش عطا فرما اور مجھ پر رحم فرما۔ بے شک تو ہی بخشنے والا مہربان ہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
عن أبي بكر الصديق رضي اللہ عنه: أنه قال لرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: علمني الدعاء أدعو به في صلاتي. قال: قل: اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا كَثِيْرًا، وَّ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ، فَاغْفِرْ لِیْ مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ، وَ ارْحَمْنِیْ، اِنَّكَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ
ترجمہ: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجیے جو میں اپنی نماز میں مانگا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: تم یہ (اوپر ذکردہ دعا) پڑھا کرو۔ (صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 286، رقم الحدیث: 799، مطبوعہ دا ر ابن کثیر، دمشق)
نوٹ: قعدہ اخیرہ میں درود پاک کے بعد ایک سے زیادہ دعائیں پڑھ سکتے ہیں،شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے ایک سے زیادہ دعائیں پڑھنا ثابت ہے، لیکن جو دعائیں پڑھی جائیں ان میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ وہ دعائیں ماثورہ یعنی قرآن و حدیث سے منقول ہوں، نیز اگر کوئی شخص امام ہو تو اُسے اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ زیادہ طویل دعائیں نہ کرے خصوصا جبکہ اس کی وجہ سے مقتدیوں کو تکلیف ہو، کیونکہ حدیث پاک میں بیماروں ، کمزوروں اور بوڑھے مقتدیوں کی رعایت کی وجہ سے امام کو نماز میں تخفیف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیْ مَا قَدَّمْتُ وَ مَا اَخَّرْتُ، وَ مَا اَسْرَرْتُ وَ مَا اَعْلَنْتُ، وَ مَا اَسْرَفْتُ، وَ مَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِهٖ مِنِّیْ، اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَ اَنْتَ الْمُؤَخِّرُ،لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ
اے اللہ! میرے اُن (تمام) گناہوں کو بخش دے جو میں پہلے کر چکا اور جو میں نے بعد میں کئے، جو میں نے چھپ کر کئے اور جو میں نے سب کے سامنے کئے۔ اور جو میں نے خطائیں کی (انہیں معاف فرما دے) اور میرے وہ گناہ جنہیں تو مجھ سے کہیں بڑھ کر جانتا ہے (انہیں بھی معاف فرما دے)۔ تُو ہی (جسے چاہے) آگے بڑھانے والا ہے اور تُو ہی پیچھے رکھنے والا ہے۔تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ (صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 534، رقم الحدیث: 771، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
نوٹ: قعدہ اخیرہ میں درود پاک کے بعد ایک سے زیادہ دعائیں پڑھ سکتے ہیں، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے ایک سے زیادہ دعائیں پڑھنا ثابت ہے، لیکن جو دعائیں پڑھی جائیں ان میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ وہ دعائیں ماثورہ یعنی قرآن و حدیث سے منقول ہوں، نیز اگر کوئی شخص امام ہو تو اُسے اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ زیادہ طویل دعائیں نہ کرے خصوصا جبکہ اس کی وجہ سے مقتدیوں کو تکلیف ہو، کیونکہ حدیث پاک میں بیماروں، کمزوروں اور بوڑھے مقتدیوں کی رعایت کی وجہ سے امام کو نماز میں تخفیف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔