
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ، وَ اَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَ اَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيْمِ، فَاِنَّكَ تَقْدِرُ وَ لَا اَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَ لَا اَعْلَمُ، وَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ، اَللّٰهُمَّ اِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ خَيْرٌ لِیْ فِیْ دِينِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ اَمْرِیْ، وَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَ آجِلِهٖ فَاقْدُرْهُ لِیْ، وَ اِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِينِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ اَمْرِیْ، وَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَ آجِلِهٖ، فَاصْرِفْهُ عَنِّیْ وَ اصْرِفْنِیْ عَنْهُ، وَ اقْدُرْ لِی الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِهٖ
اے اللہ! میں تیرے علم کے وسیلے سے تجھ سے بھلائی مانگتا ہوں، اور تیری قدرت کے ذریعے تجھ سے(بھلائی پر) قدرت مانگتا ہوں، اور میں تجھ سے تیرے عظیم فضل کاسوال کرتا ہوں۔ بیشک تو(ہر چیز پر) قادر ہے اور میں قادر نہیں، اور تو(سب کچھ) جانتا ہے اور میں کچھ نہیں جانتا، اور تو ہی سب غیبوں کا جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تیرے علم میں یہ ہےکہ یہ کام میرے لئے، میرے دین، میری دنیا اور میری آخرت، میرے ابھی اور آئندہ(بھلائی کے لحاظ سے) بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر فرما دے۔ اور اگر تیرے علم میں یہ ہےکہ یہ کام میرے لئے، میرے دین، میری دنیا، میری آخرت اورمیرے ابھی اور آئندہ(بھلائی کے لحاظ سے) براہے تو اسے مجھ سے دور فرمادے اور مجھے اس سے دور فرمادے۔ اور میرے لیے بھلائی مقدر فرما دے جو بھی ہو، پھر مجھے اس پر راضی فرما دے۔
صحیح بخاری کی حدیث مبارک میں ہے:
عن جابر رضي اللہ عنه قال: كان النبي صلی اللہ علیہ و سلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها، كالسورة من القرآن: إذا هم بالأمر فليركع ركعتين، ثم يقول: اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ، وَ اَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَ اَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيْمِ، فَاِنَّكَ تَقْدِرُ وَ لَا اَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَ لَا اَعْلَمُ، وَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ، اَللّٰهُمَّ اِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ خَيْرٌ لِیْ فِیْ دِينِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ اَمْرِیْ، اَوْ قَالَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَ آجِلِهٖ، فَاقْدُرْهُ لِیْ، وَ اِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِیْ فِیْ دِينِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ اَمْرِیْ، اَوْ قَالَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَ آجِلِهٖ، فَاصْرِفْهُ عَنِّیْ وَ اصْرِفْنِیْ عَنْهُ، وَ اقْدُرْ لِی الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِهٖ
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں تمام معاملات میں استخارہ (اللہ سے خیر مانگنا) ایسے (اہتمام سے) سکھاتے تھے، جیسے قرآنِ مجید کی کوئی سورت سکھا رہے ہوں۔(آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے) جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیئے کہ دو رکعت(نفل) نماز ادا کرے، اور پھر یہ (اوپر ذکر کردہ دعا) پڑھے: (صحیح بخاری، جلد 5، صفحہ 2345، رقم الحدیث: 6019، مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق)
حديث کی شرح: حدیث میں جو دعا ئی ہے اس میں ایک جگہ
اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَہے۔ یہاں اپنی ضرورت ذکر کرے۔ آگے ہے
’’فِیْ عَاقِبَةِ اَمْرِی“ اَوْ قَالَ ’’عَاجِلِ اَمْرِیْ وَ آجِلِهٖ“۔
یہاں کسی راوی سے شک ہو گیا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے کی
فِیْ عَاقِبَةِ اَمْرِیْ
فرمایا تھا یا اس کی جگہ
عَاجِلِ اَمْرِیْ وَ آجِلِهٖ،فرمایا تھا۔ یہاں بہتر یہ ہے کہ دونوں پڑھے یعنی
فِیْ عَاقِبَةِ اَمْرِیْ وَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَ آجِلِهٖ۔ (نزہۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 696، مطبوعہ فرید بک سٹال لاھور)
نوٹ: صِرْف ان کاموں کے بارے میں استخارہ ہوسکتا ہے جو ہر مسلمان کی رائے پر چھوڑے گئے ہیں مثلاً تجارت یا ملازمت میں سے کس کا انتخاب کیا جائے؟ سفر کے لئے کون سا دن یا کون سا ذریعہ مناسب رہے گا؟ مکان ودکان کی خریداری مفید ہوگی یا نہیں؟ کون سے علاقے میں رہائش مناسب ہوگی ؟ شادی کہاں کی جائے؟ وغیرہ وغیرہ۔ جن کاموں کے بارے میں شریعت نے واضح اَحکام بیان کردئیے ہیں ان میں استخارہ نہیں ہوتا جیسے پنج وقتہ فرض نمازیں، مالدار ہونے کی صورت میں زکوۃ کی ادائیگی، رمضان المبارک کے روزے وغیرہ کے بارے میں استخارہ نہیں کیا جائے گا کہ میں نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں؟ زکوۃ ادا کروں یا نہ کروں؟ اسی طرح جھوٹ بولنا یا کسی کی حق تلفی کرنا وغیرہ جن کاموں سے شریعت نے منع کیا ہے وہ کروں یا نہ کروں؟ بلکہ ان تمام کاموں میں شریعت کی ہدایات پر عمل کرنا ضَروری ہے۔۔ ۔۔ اِستخارہ کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اِستخارہ ایسے کام کے متعلق کیا جائے جس کے کرنے کے بارے میں طبیعت کا کسی طرف مَیلان نہ ہو کیونکہ اگر کسی ایک طرف رَغبت پیدا ہوچکی ہوگی تو پھر اِستخارہ کی مدد سے صحیح صورتحال کا واضح ہونا بہت مشکل ہوجائیگا۔ (بد شگونی، صفحہ 46،45، مکتبۃ المدینہ کراچی)