
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
(1) سُبْحَانَ اللّٰهِ
اللہ پاک ہے۔ (یہ 33 مرتبہ پڑھا جائے)
(2)اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔(یہ 33 مرتبہ پڑھی جائے)
(3) اَللّٰہُ اَکْبَرُ
اللہ سب سے بڑا ہے۔ (یہ 34 مرتبہ پڑھا جائے)
سنن ابوداؤد کی حدیث مبارک میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
شكت فاطمة إلى النبي صلی اللہ علیہ و سلم ما تلقى في يدها من الرحى، فأتي بسبي، فأتته تسأله فلم تره، فأخبرت بذلك عائشة، فلما جاء النبي صلی اللہ علیہ و سلم أخبرته، فأتانا و قد أخذنا مضاجعنا، فذهبنا لنقوم، فقال: على مكانكما فجاء فقعد بيننا حتى وجدت برد قدميه على صدري فقال: ألا أدلكما على خير مما سألتما، إذا أخذتما مضاجعكما فسبحا ثلاثا وثلاثين، و احمدا ثلاثا وثلاثين، و كبرا أربعا و ثلاثين، فهو خير لكما من خادم
ترجمہ: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس تکلیف کی شکایت کی جو چکی پیسنے کے سبب ان کے مبارک ہاتھوں کو پہنچتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کےپاس کچھ قیدی لائے گئے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے (اپنے لیے خادم) مانگنے حاضر ہوئیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ سلم کو نہ پایا (یعنی آپ سے ملاقات نہ ہوئی)۔ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے آنے کا مقصد بتا دیا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو (حضرت فاطمہ کے آنے کے بارے میں) بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے، جبکہ ہم آرام کے لیے اپنے بستروں پر جا چکے تھے۔ ہم نے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے احترام میں) اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا: تم دونوں اپنی جگہ پر ہی ٹھہرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور ہم دونوں (حضرت علی اور حضرت فاطمہ) کے درمیان بیٹھ گئے۔ (حضرت علی فرماتے ہیں کہ) یہاں تک کہ میں نے اپنے سینے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک قدموں کی ٹھنڈک محسوس کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تم دونوں کو اس چیز سے بھی بہتر نہ دوں جو تم نے مانگی ہے۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) جب تم دونوں اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو
33 مرتبہ تسبیح
(سُبْحَانَ اللهِ)،
33 مرتبہ حمد
(اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ)
اور 34 مرتبہ تکبیر
(اَللّٰهُ اَكْبَرُ)
پڑھ لیا کرو۔ پس یہ عمل تم دونوں کے لیے ایک خادم سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ (سنن ابو داؤد، جلد 4، صفحہ 315، رقم الحدیث: 5062، مطبوعہ المکتبۃ العصریہ، بیروت)
سوتے وقت آیۃ الکرسی پڑھی جائے
آیۃ الکرسی یہ ہے
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ- اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُﳛ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ- لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ- مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ- یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْۚ- وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَۚ- وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ- وَ لَا یَـٴُـوْدُهٗ حِفْظُهُمَاۚ- وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ خود زندہ ہے، دوسروں کو قائم رکھنے والاہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے؟ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور لوگ اس کے علم میں سے اتنا ہی حاصل کر سکتے ہیں جتنا وہ چاہے، اس کی کرسی آسمان اور زمین کو اپنی وسعت میں لئے ہوئے ہے اور ان کی حفاظت اسے تھکانہیں سکتی اور وہی بلند شان والا، عظمت والا ہے۔ (القرآن، پارہ 3، سور ۂ بقرہ، آیت 255)
صحیح بخاری کی حدیث میں ہے:
عن أبي هريرة رضي اللہ عنه قال: وكلني رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بحفظ زكاة رمضان، فأتاني آت، فجعل يحثو من الطعام، فأخذته فقلت: لأرفعنك إلى رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔۔۔ فقال: إذا أويت إلى فراشك فاقرأ آية الكرسي، لن يزال معك من اللہ حافظ، و لا يقربك شيطان حتى تصبح. وقال النبي صلی اللہ علیہ و سلم: صدقك و هو كذوب، ذاك شيطان
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ (کے غلے) کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ ایک رات ایک آنے والا آیا اور غلے میں سے لپیں بھرنے لگا (یعنی دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے لگا)۔ میں نے اسے پکڑ لیا پھر اسے کہا: میں تجھے ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور پیش کروں گا۔پھر اس (چور) نے کہا: جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کرو۔ (اگر تم ایسا کرو گے تو) اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر ایک محافظ مقرر رہے گا اور صبح تک کوئی شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اس نے تم سے بات تو سچی کہی ہے، حالانکہ وہ خود بہت بڑا جھوٹا ہے۔وہ شیطان تھا۔ (صحیح بخاری، جلد 6، صفحہ 188، رقم الحدیث: 5010، مطبوعہ دار طوق النجاۃ)