
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ گرمیوں کے موسم میں ہماری مسجد میں کچھ نمازیں (مغرب، عشاء اور فجر) مسجد کے صحن میں اداکی جاتی ہیں، مسجدکے صحن میں ماربل کی ٹائلیں لگی ہیں، سارا صحن بالکل صاف و شفاف اورٹھنڈاہوتاہے، جبکہ صفیں آدھے صحن میں بچھائی جاتی ہیں، دائیں بائیں مسجد کا کچھ حصہ خالی ہوتا ہے، اس میں صفیں نہ بچھائے جانے کی وجہ سے نمازی وہاں نماز ادا نہیں کرتے، جبکہ مسجد کا سارا صحن عینِ مسجد ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ یوں صفیں بچھانے سے دورانِ جماعت قطع صف لازم آئے گایا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
شریعت کی رو سےنمازکی صفوں کی درستی، نمازیوں کا خوب مِل کر کھڑا ہونا اور ”اتمامِ صف“ یعنی صفوں کو اس طرح مکمل کرنا کہ کسی بھی صف میں دونوں کناروں یادرمیان سےجگہ خالی نہ چھوڑی جائے، خواہ وہاں صف بچھی ہویا نہ ہو،یہ تمام چیزیں صف کےواجبات میں سےہیں، جن پر احادیث مبارکہ میں بہت تاکید فرمائی گئی ہےاور اس پر عمل نہ کرنے والوں کےلئےسخت وعیدات بیان کی گئی ہیں، لہٰذا جب تک مسجد کے صحن میں دائیں بائیں دونوں کنارے پُرنہ ہوجائیں، اس وقت تک پیچھے دوسری صف بنانا ،جائز نہیں، کیونکہ یہ اتمامِ صف کے حکم کے خلاف ہے، جو ناجائز و گناہ ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ کی مسجد کےنمازیوں پرلازم ہے کہ وہ دورانِ جماعت مسجد کے صحن کےدونوں کونوں تک مکمل صفیں بنائیں، خواہ وہاں صف بچھی ہو یا نہ ہو۔ نیزمسجد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مسجد کے صحن کے دونوں کونوں تک صفیں بچھوائیں، تاکہ نمازی دورانِ جماعت قطع صف کے گناہ سے بچ سکیں۔
صف کو دونوں کونوں تک مکمل کرنے کے متعلق سنن ابی داؤد میں ہے:
عن أنس أن رسول اللہ صلى اللہ عليه و آلہ و سلم قال: أتموا الصف المقدم، ثم الذي يليه، فما كان من نقص فليكن في الصف المؤخر
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پہلی صف کو مکمل کرو، پھر اس کے بعد والی، تو جو کچھ کمی ہو وہ آخر ی صف میں ہونی چاہیے۔ (سنن ابي داؤد، جلد 02، صفحہ 11، رقم الحدیث 671، مطبوعہ دار الرسالۃ العالمیہ)
صف قطع کرنے والوں کے متعلق مسندِاحمد میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:
أقيموا الصفوف، فإنما تصفون بصفوف الملائكة وحاذوا بين المناكب، و سدوا الخلل، و لينوا في أيدي إخوانكم، و لا تذروا فرجات للشيطان، و من وصل صفا،وصله اللہ تبارك و تعالىٰ، و من قطع صفا قطعه اللہ تبارك و تعالى
ترجمہ: صفوں کوسیدھا کرو ، کیونکہ تم ملائکہ کی صفوں کی طرح صفیں بناتے ہو اور اپنے کندھوں کو برابر کرواور صفوں کی خالی جگہوں کو پورا کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہیں نہ چھوڑو اور جس نے صف کو ملایا اللہ تعالیٰ اس کو ملائے گا اور جس نے صف کو قطع کیا، اللہ تعالیٰ اس کو قطع فرمائے گا۔ (مسند احمد، جلد 10، صفحہ 17، رقم الحدیث 5724، مؤسسۃ الرسالہ)
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، شرح سنن ابی داؤد للعینی اور مرقاة المفاتیح میں ہے،
و اللفظ للآخر: (و من وصل صفا) بالحضور فيه وسد الخلل منه (وصله اللہ) أي: برحمته (و من قطعه) أي: بالغيبة، أو بعدم السد، أو بوضع شيء مانع (قطعه اللہ) أي: من رحمته الشاملة وعنايته الكاملة، و فيه تهديد شديد و وعيد بليغ، و لذا عده ابن حجر من الكبائر في كتابه الزواجر
ترجمہ: اور جس نے صف میں حاضر ہوکر اور صف کے خلل کو دور کرکے صف کو ملایا، تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت سے ملادے گا اور جس نے صف میں شامل نہ ہوکر یا خلل کو مکمل نہ کرکے یاتکمیلِ صف سے مانع کوئی چیز رکھ کر صف کو کاٹا، تو اللہ تعالیٰ اس کواپنی رحمت شاملہ و عنایت کاملہ سے کاٹ دے گا اور اس میں سخت تہدید (ڈانٹ)و شدید وعید ہے، یہی وجہ ہے کہ قطعِ صف کو امام ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ''الزواجر'' میں کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد 03، صفحه 854، مطبوعه دار الفکر، بیروت)
بحر الرائق شرح کنزالدقائق میں ہے:
ينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدواالخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف و ينبغي أن يكملوا ما يلي الإمام من الصفوف، ثم ما يلي ما يليه وهلم جرا وإن وجد في الصف فرجة سدها
ترجمہ: قوم (مقتدیوں) کے لیے مناسب ہے کہ جب وہ نماز کےلئے کھڑے ہوں، تو وہ خوب آپس میں مل کر کھڑے ہوں اور خالی جگہوں کو مکمل کریں اور صفوں میں اپنے کندھوں کو آپس میں ملالیں اور یہ بھی مناسب ہے کہ پہلے وہ امام سے متصل صف مکمل کریں، پھر اس کے بعد والی اسی طرح آخر تک کریں اور جب کوئی شخص صف میں خالی جگہ پائے، تو اس کو مکمل کرے۔ (بحر الرائق، جلد 01، صفحہ 375، دار الکتاب الاسلامی)
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”دربارہ صفوف شرعاً تین باتیں بتاکیداکیدماموربہ ہیں اور تینوں آج کل معاذاللہ کالمتروک ہورہی ہیں، یہی باعث ہے کہ مسلمانوں میں نااتفاقی پھیلی ہوئی ہے۔۔۔ اول: تسویہ کہ صف برابر ہو،خم نہ ہو، کج نہ ہو، مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں، سب کی گردنیں شانے ٹخنے آپس میں محاذی ایک خط مستقیم پرواقع ہوں، جو اس خط پرکہ ہمارے سینوں سے نکل کر قبلہ معظمہ پر گزراہے عمود ہو۔۔۔دوم: اتمام کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو دوسری نہ کریں۔۔۔۔ سوم: تراصّ یعنی خوب مل کر کھڑاہونا کہ شانہ سے شانہ چھلے، یہ بھی اسی اتمام صفوف کے متممات سے اور تینوں امرشرعاً واجب ہیں۔“ (ملتقطاً، فتاویٰ رضویہ، جلد 07، صفحہ 219 تا 223، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
ایک اور مقام پر امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکمیل صف کا نہایت اہتمام فرماتے اور اس میں کسی جگہ فرجہ چھوڑنے کو سخت ناپسند فرماتے۔۔۔وصل صفوف اور ان کی رخنہ بندی اہم ضروریات سے ہے اور ترک فرجہ ممنوع و ناجائز۔“ (ملتقطاً،فتاوٰی رضویہ، جلد 07، صفحہ 41_ 46، رضا فاؤنڈیشن)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: OKR-0037
تاریخ اجراء: 03 صفر المظفر 1447 ھ / 29 جولائی 2025ء