اکیلے نماز پڑھنے والے کی اقتدا کرسکتے ہیں؟

اکیلے نماز پڑھنے والے کی کوئی اقتداء کرے تو کیا حکم ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عرب ممالک میں جب ہم اکیلے نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو بعد میں آنے والا دوسرا نمازی کندھے پر ہاتھ لگا کر ساتھ کھڑے ہو کر مقتدی بن کر نماز شروع کر دیتا ہے، چاہے کوئی شخص فرض پڑھ رہا ہو یا سنت یا نفل نماز پڑھ رہا ہو ۔ ایسا کرنا کیسا ہے؟ نیز اگر کوئی اس طرح تنہا نماز پڑھنے والے کے ساتھ بغیر تحقیق کے مقتدی بن کر شامل ہوجائے، تو اس کو کیا کرنا چاہئے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اقتداء صحیح ہونے کے لیے دیگر شرائط میں سے ایک بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ امام و مقتدی دونوں کی نماز نام و صفت ہر دو اعتبار سے ایک ہو، یا امام کی نماز مقتدی کی نماز سے اعلیٰ ہو۔ یعنی دونوں ایک ہی دن اور ایک ہی وقت کی نماز (ادا یا قضا) پڑھ رہے ہوں، تو اقتدا درست ہے، یا امام فرض نماز پڑھ رہا ہواور مقتدی سنت و نفل کی نیت سے شریک ہو تو امام کی نماز کے مقتدی کی نماز سے اعلیٰ ہونے کی وجہ سے بھی اقتدا درست ہوجائے گی۔ لیکن اگر امام اور مقتدی کی نمازیں وقت یا دن کے اعتبار سے مختلف ہوں جیسے ایک آج کی ظہر پڑھ رہا ہے اور دوسرا عصر کی نیت سے شامل ہو، یا ایک آج کی ظہر پڑھ رہا ہے اور دوسرا کل کی قضا پڑھ رہا ہو تو اقتدا درست نہیں ہوگی۔ یونہی اگر امام نفل یا سنت نماز پڑھ رہا ہو اور مقتدی فرض نماز کی نیت سے اس کی اقتداکرے، تو یہ اقتدا بھی درست نہیں ہوگی کیونکہ مقتدی کی نماز امام کی نماز سے اعلیٰ ہے۔

یہ تو ایک عمومی جواب ہے، البتہ بعض عرب ممالک میں جو یہ طریقہ رائج ہے کہ مساجد ، ائیرپورٹ، یا دیگر جگہوں پرجو بھی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو، بعد میں آنے والا شخص اس کے ساتھ شریک ہو کر اس کی اقتدا میں نماز شروع کر دیتا ہے اور اس بات کی تحقیق بالکل نہیں کی جاتی کہ یہ تنہا نماز پڑھنے والا شخص فرض نماز پڑھ رہا ہے یا سنت و نفل ادا کررہا ہے؟ فرض پڑھ رہا ہے تو کونسی فرض نماز پڑھ رہا ہے ؟آج کی وقتی فرض ادا کررہا ہے یا قضا پڑھ رہا ہے؟ پھر وہ شخص امامت کا اہل بھی ہے یا نہیں؟ پھر عرب دنیا میں سفر کے دوران جمع بین الصلوتین عام ہے یعنی ایک وقت میں دو نمازیں جیسے ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر دونوں پڑھ لینا تو ایسی صورت میں بھی وہی نمازیں مختلف ہونے کا مسئلہ درپیش ہوسکتا ہے، پھر بہت سی جگہ عقیدے کا شدید اختلاف، تو ایسی صورت میں بغیر تحقیق کے کسی کی اقتداء میں نماز شروع کردینا واقعی ایک غیر محتاط انداز ہے اور بعض صورتوں میں اقتدا کرنے والے کی نماز اصلاً ہی ادا نہیں ہوگی جیسے اوپر تفصیل سے اس کی صورتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ لہذا اوپر کے ضروری احکام کے متعلق صحیح قرائن سے اقتداء درست ہونے کی معلومات ہونے کے بعد ہی نماز میں اقتداء کی جائے۔ البتہ اگر قابل امامت شخص کے ساتھ بعد میں آنے والا کوئی شخص شریک ہوجائے تو تنہا نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ نماز کے بعد اس شخص سے دریافت کرلے کہ وہ کس نیت سے اس کے ساتھ نماز میں شامل ہوا ہے؟ اگر اوپر بیان کردہ تفصیل کی روشنی میں اس کی اقتدا درست ہو سکتی ہو تو ٹھیک،ورنہ اس کو بتادے کہ آپ کی یہ نماز میری اقتدا میں درست نہیں ہوئی ،آپ اس کو دوبارہ ادا کرلیں۔

واضح رہے کہ جن صورتوں میں بعد میں آنے والے شخص کا تنہا شخص کے ساتھ نماز میں شریک ہوکراس اقتدا کرنا درست ہوسکتا ہے، اس میں یہ ضروری نہیں کہ تنہا نماز پڑھنے والے شخص نے پہلے یا بعد میں امامت کی نیت کی ہو کیونکہ مقتدی کی نماز کے صحیح ہونے کیلئے امام کا نیتِ امامت کرناضروری نہیں ہوتا۔

اقتدا کی شرائط میں سے ایک شرط، امام اور مقتدی کی نماز کا ایک ہونا بھی ہے، چنانچہ در مختار میں ہے:

و اتحاد صلاتھما

ترجمہ: امام اور مقتدی دونوں کی نماز کا ایک ہونا۔

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں ارشاد فرماتے ہیں:

قال فی البحر :والاتحاد أن یمکنہ الدخول فی صلاتہ بنیۃ صلاۃ الامام فتکون صلاۃ الامام متضمنۃ لصلاۃ المقتدی اھ فدخل اقتداء المتنفل بالمفترض

ترجمہ: بحر الرائق میں فرمایا کہ اتحاد یہ ہے کہ امام کی نماز کی نیت کے ساتھ، مقتدی کی نماز کا، امام کی نماز میں داخل ہونا ممکن ہو، لہذا اس میں نفل پڑھنے والے کی فرض پڑھنے والے کے ساتھ اقتدا داخل ہوگئی۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 338- 339،دار المعرفۃ، بیروت)

نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنےو الے کی، اور ایک فرض پڑھنے والے کے پیچھے دوسرے فرض پڑھنے والے کی اقتدا درست نہیں ہوتی، چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

(و) لا(مفترض بمتنفل وبمفترض فرضا آخر)لأن اتحاد الصلاتين شرط عندنا

ترجمہ: فرض پڑھنے والے شخص کی نفل پڑھنے والے کے پیچھے اور یونہی ایک فرض پڑھنے والے کی دوسرے فرض پڑھنے والے کے پیچھے اقتدا درست نہیں کیونکہ امام اور مقتدی دونوں کی نماز کا ایک ہونا ہمارے نزدیک شرط ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 2، صفحہ 391- 392،دار المعرفۃ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے: ’’فرض نماز نفل پڑھنے والے کے پیچھے اور ایک فرض والے کی دوسرے فرض پڑھنے والے کے پیچھے نہیں ہوسکتی خواہ دونوں کے فرض دو نام کے ہوں، مثلاً ایک ظہر پڑھتا ہو دوسرا عصر يا صفت میں جُدا ہوں، مثلاً ایک آج کی ظہر پڑھتا ہو، دوسرا کل کی‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 572، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ وقار الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اقتداء صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ امام و مقتدی کی نماز ایک ہو یا امام کی نماز مقتدی کی نماز سے اعلیٰ ہو یعنی دونوں ایک ہی وقت کے فرض پڑھ رہے ہوں، یا امام فرض پڑھ رہا ہے اور مقتدی نفل کی نیت سے اقتدا کرے تو جائز ہے۔ لیکن اگر مقتدی کی نماز امام کی نماز سے اعلیٰ ہو تو اقتداء باطل ہوتی ہے۔ یعنی امام نفل پڑھے اور مقتدی فرض یا واجب نماز پڑھنے کے لیے اس کا مقتدی بنے یہ نماز باطل ہے۔‘‘ (وقار الفتاوٰی، جلد 2، صفحہ 206، مطبوعہ بزم وقار الدین)

امامت کی شرائط کے متعلق نور الایضاح میں ہے:

شروط صحۃ الامامۃ للرجال الاصحاء ستۃ أشیاء، الاسلام و البلوغ و العقل و الذکورۃو القراءۃ و السلامۃمن الاعذار

ترجمہ: مرد غیر معذور کے امام کیلئے چھ شرطیں ہیں: مسلمان ہونا، بالغ اور عاقل ہونا، مرد ہونا، قراءت (درست ہونا)، معذورِ (شرعی) نہ ہونا۔ (نور الایضاح، باب الامامۃ، صفحہ 155، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’جو شخص وضو وغسل وغیرہ طہارت ٹھیک کرتا ہو، نماز صحیح پڑھتا ہو، قرآن مجید ایسا غلط نہ پڑھتا ہو جس سے معنی بدلیں فاسد ہوں اس کے پیچھے نماز ہوجائے گی مگر امام بنانا جائز ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ مذہب کا سنی خالص ہوفاسق علی الاعلان نہ ہو یعنی کوئی گناہ کبھی اعلان کے ساتھ نہ کرتا ہو صغیرہ بھی عادت واصرار سے کبیرہ ہوجاتاہے، جو شخص ان سب باتوں کا جامع ہو اُسے امام بنانے میں حرج نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 535، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اقتدا کے درست ہونے کیلئے امام کا نیت امامت کرنا ضروری نہیں، چنانچہ بہار شریعت میں ہے: ’’مقتدی کو اقتدا کی نیت بھی ضروری ہے اور امام کو نیت اِمامت مقتدی کی نماز صحیح ہونے کے ليے ضروری نہیں، یہاں تک کہ اگر امام نے یہ قصد کرلیا کہ ميں فلاں کا امام نہیں ہوں اور اس نے اس کی اقتدا کی نماز ہوگئی، مگر امام نے اِمامت کی نیت نہ کی تو ثواب جماعت نہ پائے گا اور ثواب جماعت حاصل ہونے کے ليے مقتدی کی شرکت سے پیشتر نیت کر لینا ضروری نہیں، بلکہ وقت شرکت بھی نیت کر سکتا ہے‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 495، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-828

تاریخ اجراء: 25 محرم الحرام 1447ھ/ 21 جولائی 2025ء