عصر کے وقت ظہر کی قضا پڑھنا کیسا؟

عصر کا وقت شروع ہونے کے بعد اور جماعت سے پہلے ظہر کی قضا نمازپڑھنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر نمازِعصر کاوقت شروع ہو چکا ہو اور جماعت میں ابھی 15 سے 20 منٹ باقی ہوں، تو کیا اُس وقت اسی دن کی قضا ہونے والی ظہر کی نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ اور کیا اُس وقت ظہر کی مکمل 12 رکعات (فرض،سنت مؤکدہ و غیر مؤکدہ سمیت) ادا کرنی ہوں گی یا صرف چار رکعت فرض کی قضا کرنا کافی ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

قضاء نماز کے لیے کوئی خاص وقت معین نہیں، تین مکروہ اوقات جس میں کوئی نماز پڑھنا جائز نہیں (یعنی سورج طلوع ہونے سے لے کر تقریباً 20 منٹ بعد تک، سورج غروب ہونے کے وقت سے تقریباً 20 منٹ پہلے کا دورانیہ، اور ضحوۂ کبری یعنی نصف النہارِ شرعی سے لے کر سورج ڈھلنے تک، جسے عوام زوال کاوقت کہتی ہے) کے علاوہ تمام اوقات میں سے جس وقت چاہیں قضا نماز پڑھ سکتے ہیں، لہذا نمازِ عصر کا وقت شروع ہونے کے بعد جماعت سے پہلے بھی ظہر کی قضا نماز ادا کی جاسکتی ہے، بلکہ جو شخص صاحبِ ترتیب ہو یعنی اُس شخص کی چھ سے کم نمازیں قضا ہوں، اُس پر تو لازم ہوگا کہ وہ نمازِ عصر ادا کرنے سے پہلے نمازِ ظہر کی قضا کرے، اگرچہ جماعت کا وقت ہوچکا ہو بلکہ جماعت شروع بھی ہوچکی ہو، کیونکہ صاحبِ ترتیب پر نمازوں کے درمیان ترتیب قائم رکھنا اور وقتی نماز سے پہلے قضا نماز کی ادائیگی کرنا لازم ہوتا ہے، ایسا شخص اگر قضا نماز کے یاد ہونے اور وقت میں وُسعت ہونے کے باوجود، پہلے وقتی نماز پڑھے، تو قصداً ترتیب کی خلاف وَرزی کے سبب گنہگار ہوتا ہے اور اس کی وہ وقتی نماز بھی ادا نہیں ہوتی۔

نیز قضا ظہر پڑھتے وقت صرف ظہر کے چار فرضوں کی قضا ہی لازم ہوگی، فرضوں سے پہلے اور بعد والی سُنن و نوافل میں سے کوئی بھی ادا نہیں کی جائیں گی، کیونکہ فرضوں کے ساتھ سنتوں کی ادائیگی اس وقت کی جاتی ہے کہ جب فرض نمازاپنے وقت میں ہی ادا کی جارہی ہو، ورنہ اگر فرض نماز کا وقت نکل چکا ہو تو بعد میں اس کی قضا کرتے وقت صرف فرض وواجب کی قضا کی جاتی ہے، سُنن و نوافل کی نہیں، سوائے ایک صورت میں کہ اگر فجر کی نماز سنت و فرض سمیت قضا ہوجائے، اور طلوع آفتاب کے بیس منٹ بعداور ضحوہ کبری سےپہلے اُس کی قضا کی جارہی ہو تو فرض کے ساتھ سنت کی بھی قضا کی جائے گی یا تنہا سنتِ فجر رہ جائیں تو مذکورہ بالا وقت میں یہ دو رکعت پڑھ لینا مستحب ہے۔

تین مکروہ اوقات کے علاوہ کسی وقت بھی قضا نماز ادا کی جاسکتی ہے، چنانچہ بحر الرائق میں ہے:

ليس للقضاء وقت معين بل جميع أوقات العمر وقت له إلا ثلاثة وقت طلوع الشمس ووقت الزوال ووقت الغروب فإنه لا تجوز الصلاة في هذه الأوقات

ترجمہ: قضا نماز کیلئے کوئی معین وقت نہیں بلکہ تمام عمر قضا نماز کی ادائیگی کا وقت ہے، سوائے تین اوقات کے، طلوع شمس کا وقت، زوال کا وقت اور غروب کا وقت کہ ان اوقات میں کوئی نماز جائز نہیں۔ (بحر الرائق، جلد 2، صفحہ 86، دار الكتاب الإسلامي، بیروت)

امداد الفتاح میں ہے:

ثلاثۃ اوقات لا یصح فیھا شیء من الفرائض و الواجبات التی لزمت فی الذمۃ قبل دخولھا، عند طلوع الشمس الی ان ترتفع و عند استوائھا الی ان تزول و عند اصفرارھا الی ان تغرب

ترجمہ: تین اوقات ایسے ہیں جن میں ایسے فرائض و واجبات میں سے بھی کچھ نہیں پڑھ سکتے کہ جو ان اوقات کے داخل ہونے سے پہلے ذمے پر لازم تھے، (وہ تین اوقات یہ ہیں) سورج طلوع ہونے سے لے کر بلند ہونے تک، نصف النہار شرعی سے سورج کے ڈھلنے تک (جسے عوام زوا ل کہتی ہے) اور سورج کے زرد ہونے سے لے کر غروب ہونے تک۔ (امداد الفتاح شرح نور الایضاح، صفحہ 194، مطبوعہ کوئٹہ)

صاحب ترتیب شخص پر فرض نمازوں میں باہم ترتیب رکھنا لازم ہوتا ہے، سوائے یہ کہ وہ قضا نمازبھول جائے،یا وقت تنگ ہو، یا صاحب ترتیب ہی نہ رہا ہو، چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

(الترتیب بین الفروض الخمسۃ و الوتر اداء و قضاء لازم۔۔۔ الا) فلا یلزم الترتیب (اذا ضاق الوقت أو نسیت الفائتۃ أو فاتت ست بخروج وقت السادسۃ)

ترجمہ: پانچ فرض نمازوں میں باہم اور وتر میں ترتیب لازم ہے،چاہے یہ ادا ہوں یا قضا،سوائے یہ کہ جب وقت تنگ ہو یا قضا ہونے والی نماز کو بھول جائے یا چھٹی نماز کا وقت نکل جانے سے چھ نمازیں قضا ہوجائیں تو اب ترتیب لازم نہیں۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 2، صفحہ 633 - 638، دار المعرفۃ، بیروت)

صاحب ترتیب شخص اگرقضا یاد ہوتے ہوئے،وقتی نماز پڑھ لےگا تو اسکی وقتی نماز فاسد ہوگی، جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

الترتیب بین الفائتۃ و الوقتیۃ و بین الفوائت مستحق کذا فی الکافی، حتی لا یجوز اداء الوقتیۃ قبل قضاء الفائتۃکذا فی محیط السرخسی۔۔۔ اذا صلی الظھر و ھو ذاکر انہ لم یصل الفجر فسد ظھرہ

ترجمہ: قضا اور ادا نمازوں کے مابین اور قضا نمازوں میں باہم ترتیب قائم رکھنا ضروری ہے، جیسا کہ کافی میں مذکور ہے،یہاں تک کہ فوت ہونے والی نماز سے پہلے،وقتی نماز ادا کرنا جائز نہیں اسی طرح محیط سرخسی میں ہے۔۔۔ جب کسی شخص نےظہر کی نماز پڑھی اور اسے یاد تھا کہ اس نے فجر کی نماز نہیں پڑھی ہے تو اس کی ظہر فاسد ہوگئی۔ (الفتاوٰی الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 134 - 135، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں ارشاد فرماتے ہیں: ”پانچوں فرضوں میں باہم اور فرض و وتر میں ترتیب ضروری ہے کہ پہلے فجر پھر ظہر پھر عصر پھر مغرب پھر عشا پھر وتر پڑھے، خواہ یہ سب قضا ہوں یا بعض ادا بعض قضا، مثلاً ظہر کی قضا ہوگئی تو فرض ہے کہ اسے پڑھ کر عصر پڑھے یا وتر قضا ہو گیا تو اُسے پڑھ کر فجر پڑھے اگر یاد ہوتے ہوئے عصر یا فجر کی پڑھ لی تو ناجائز ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 370، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

سنتیں جب اپنے وقت سے فوت ہوجائیں تو اُن کی قضا نہیں، چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

و السنن اذا فاتت عن وقتھا لم یقضھا الا رکعتی الفجر اذا فاتتا مع الفرض یقضیھا بعد طلوع الشمس الی وقت الزوال ثم یسقط

ترجمہ: اور سنتیں اگر اپنے وقت سے فوت ہوجائیں، تو ان کی قضا نہیں، سوائے یہ کہ اگر فجر کی سنتیں فرائض کے ساتھ رہ جائیں، تو طلوعِ شمس کے بعد زوال سے پہلے قضا کی جائیں، اس کے بعد ساقط ہو جائیں گی۔ (الفتاوی الھندیہ، جلد 1، صفحہ 124، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

قضا نماز کی ادائیگی میں صرف سنتِ فجر کی قضا فرضوں کے ساتھ زوال سے پہلے لازم ہوتی ہے، اس کے علاوہ فرض قضا کرتے ہوئے کسی سنت کی بھی قضا لازم نہیں، چنانچہ بحر الرائق میں ہے:

و لم تقض إلا تبعا قبل الزوال۔۔۔ و قيد بسنة الفجر لأن سائر السنن لا تقضى بعد الوقت لا تبعا و لا مقصودا

ترجمہ: فجر کی سنتوں کی قضا نہیں پڑھی جائے گی، مگر زوال سے پہلے فرض کے تابع ہو کر (کہ اس صورت میں فرض کے ساتھ سنت کی قضا بھی پڑھی جائے گی) اور فجر کی سنتوں کی قید لگائی گئی کیونکہ بقیہ ساری سنتوں کے وقت گزر جانے کے بعد نہ تو تبعاً قضا ہے،نہ مقصودی طور پر۔ (بحر الرائق، جلد 2، صفحہ 80، دار الكتاب الإسلامي، بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’تحقیق مقام و تنفیح مرام یہ ہے کہ حقیقۃ قضانہیں مگر فرض یا واجب کی۔۔۔ کیونکہ قضاء فوت شدہ کی مثل بلکہ محققین علماء کے ہاں عین نماز ہوتی ہے، ہاں فوت ہونے کے بعد جس کا وقت خود رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے معین فرمادیا وہ ادائیگی سنت ہوگی اور قضا بھی حقیقی ہوگی ۔ باقی نوافل و سنن اگرچہ موکدہ ہوں مستحق قضا نہیں کہ شرعاً لازم ہی نہ تھی جو بعد فوت ذمہ پرباقی ر ہیں، مگر بعض جگہ بر خلاف قیاس نص وارد ہوگیا وہی سنتیں جو ایک محل میں ادا کی جاتی تھیں بعد فوت دوسری جگہ ادا فرمائی گئیں جیسے فجر کی سنتیں جبکہ فرض کے ساتھ فوت ہوں بشرطیکہ بعد بلندی آفتاب وقبل از زوال ادا کی جائیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 147 - 148، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-802

تاریخ اجراء: 01 محرم الحرام 1447ھ / 27 جون 2025ء