
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ آیتِ سجدہ کا ترجمہ سننےسےسجدہ تلاوت واجب ہونے کے لئے سامع (سننے والے ) کے لئے ترجمہ کامفہوم سمجھناشرط ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
آیتِ سجدہ کا ترجمہ سننے سے سجدہ تلاوت تب واجب ہوگا جب سننے والے کو معلوم ہو کہ یہ آیتِ سجدہ کا ترجمہ ہے اور وہ اس ترجمہ کا مفہوم بھی سمجھتا ہو،کیونکہ اگر سننے والے کو یہ علم ہی نہ ہو کہ یہ آیتِ سجدہ کا ترجمہ ہے، تو وہ معذور ہوگا، لہٰذا سجدہ تلاوت بھی واجب نہیں ہوگا، ورنہ اسے اس بات کا مکّلف بنانا لازم آئے گا،جس کا اس کو علم ہی نہیں ہے اور اگر سامع نے ترجمہ کا مفہوم نہ سمجھا، تو اس صورت میں وہ قرآنِ پاک کو سننے والا شمار نہیں ہوگا، لہٰذا سجدہ تلاوت بھی واجب نہیں ہوگا۔
بہارِ شریعت میں موجود مذکورہ مسئلہ کی تنقیح:
کلماتِ فقہاء کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ جو مسئلہ فتاوٰی عالمگیری میں بیان ہوا ہے، وہ دراصل امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا قدیم قول ہے، حالانکہ فتاوٰی عالمگیری میں اسی مقام پر بعد میں صاحبین (امام ابویوسف و امام محمد رحمہما اللہ) کا قول بھی مذکور ہے، جو راجح، معتمد علیہ اور مفتٰی بہ ہے اور اسی قول کی طرف امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا رجوع بھی منقول ہے۔ اسی بنا پر اعلیٰ حضرت ،امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے صاحبین کے قول کو فتاوٰی رضویہ اور جدالممتار میں اختیار فرمایا اگرچہ بہارِ شریعت میں عالمگیری کا پہلا قول ہی نقل کیا گیا ہے،لیکن راجح وہی ہے جو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے۔
بالترتیب جزئیات:
آیتِ سجدہ کا ترجمہ سننے سے سجدہ تلاوت واجب ہونےیا نہ ہونے کے متعلق المبسوط للسرخسی میں ہے:
لو قرأها رجل بالفارسية وسمعها قوم لا يفقهون الفارسية وهم في غير الصلاة فعليه وعليهم أن يسجدوها وهذا قياس قول أبي حنيفة رحمه اللہ تعالىٰ وذكر في الأمالي عن أبي يوسف رحمه اللہ تعالىٰ قال إنما تجب السجدة ههنا على من يعلم أنه يقرأ آية السجدة ولا تجب على من لا يفهم ذلك وهو قول محمد رحمه اللہ تعالى
ترجمہ:اگر کسی نے فارسی زبان میں آیتِ سجدہ کا ترجمہ پڑھا اور اسے ایک قوم نے سنا ، حالانکہ وہ فارسی کو سمجھتے نہ ہوں اور وہ نماز کے علاوہ ہوں، تو ترجمہ پڑھنے اور سننے والوں پر سجدہ تلاوت لازم ہوجائے گا، یہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کا قیاس ہے ، جبکہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے " کتاب الامالی" میں ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایسے شخص پر سجدہ تلاوت اس صورت میں واجب ہوگا،جب وہ جانتا ہو کہ آیتِ سجدہ پڑھی جا رہی ہے اور جس نے آیتِ سجدہ کا ترجمہ نہ سمجھا، تواس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوگا اور یہی امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ (المبسوط للسرخسی، جلد 02، صفحہ 133،مطبوعہ دار المعرفۃ )
علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1088ھ) لکھتےہیں:
والسماع شرط في حق غير التالي ولو بالفارسية إذا أخبر
ترجمہ:(سجدہ تلاوت واجب ہونے کے لئے)تلاوت کرنے والے کے علاوہ کےلئےآیتِ سجدہ کا سننا شرط ہے،اگرچہ وہ فارسی زبان میں ہو، جبکہ سامع کو(آیتِ سجدہ کا ترجمہ ہونے) کے متعلق بتا دیا گیا ہو۔ (درمختار مع رد المحتار،کتاب الصلوٰۃ، صفحہ 102،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت)
مذکور بالا عبارت کے الفاظ
(اذا اخبر )
کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ /1836ء) لکھتے ہیں:
أي بأنها آية سجدة سواء فهمها أو لا وهذا عند الامام وعندهما إن علم السامع أنه يقرأ القرآن لزمته وإلا فلا،بحر۔وفي الفيض وبه يفتى وفي النهر عن السراج أن الامام رجع إلى قولهما وعليه الاعتماد۔ والمراد من قوله: إن علم السامع أن يفهم معنى الآية كما في شرح المجمع حيث قال: وجبت عليه سواء فهم معنى الآية أو لا عنده ،وقالا:إن فهمها وجبت وإلا فلا لأنه إذا فهم كان سامعا للقرآن من وجه دون وجه
ترجمہ:یعنی اسے بتا دیا گیا ہوکہ یہ آیتِ سجدہ ہے،خواہ اس نےمفہوم کو سمجھا ہو یا نہ سمجھا ہو ،یہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہے اور صاحبین رحمھما اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر سامع جانتا ہے کہ و ہ قرآنِ پاک(سے آیتِ سجدہ کے ترجمہ) کی تلاوت کر رہا ہے ،تو اس پر سجدہ تلاوت واجب ہوگا ،ورنہ نہیں، اور" فیض" میں ہے کہ اسی (صاحبین کے قول) پر فتوٰی دیا جائے گا اور" نہر الفائق" میں "سراج "کے حوالے سے ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے صاحبین کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا اور اسی قول پر اعتماد ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ سامع آیتِ سجدہ کا معنی سمجھ لے،جیسا کہ شرح المجمع میں فرمایا کہ سامع پرسجدہ تلاوت واجب ہوگا ،خواہ اس نے آیت کا معنی سمجھا ہو یا نہ سمجھا ہو اور یہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہے ، جبکہ صاحبین رحمھما اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اگر سامع نے اس آیت کا ترجمہ سمجھ لیا، تو اس پر سجدہ تلاوت واجب ہوگا،ورنہ نہیں ،کیونکہ جب سامع نے آیت کا معنی جان لیا ،تو وہ ایک اعتبار (معنیٰ کے اعتبار )سے قرآن پاک کو سننے والا ہوگیا اور ایک اعتبار (لفظ کے اعتبار )سے نہیں۔ (رد المحتار علی در مختار،جلد 02،صفحہ 105،مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
در مختار کی مذکور بالا عبارت کے الفاظ (اذا اخبر) کے تحت علامہ اَحمد طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1231ھ /1815ء) لکھتے ہیں:
اما اذا لم یخبر فھو معذور
ترجمہ: بہر حال جب سامع کو خبر نہ دی گئی ہو،تو وہ معذور ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختارجلد02، صفحہ542، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
مراقی الفلاح کے الفاظ
(وتجب السجدة بسماع القراءة باللغة الفارسية إن فهمها على المعتمد)
کے تحت علامہ اَحمد طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1231ھ / 1815ء) لکھتے ہیں:
أما قوله المرجوع إليه فهو كقولهما فلا تجب السجدة إلا بالفهم لأنها قرآن من وجه وهو المعنى دون وجه وهو النظم فإذا فهم كان سامعا للقرآن من وجه دون وجه فتجب احتياطا قوله: (إذا أخبر بأنها آية سجدة)أما إذا لم يخبر فلا تجب لأنه لا تكليف بدون علم أو دليله ويفهم منه أنه على قولهما يشترط الفهم والاخبار معا
ترجمہ: بہرحال امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مرجوع الیہ قول اور یہی صاحبین علیھما الرحمۃ کا قول ہے کہ سجدہ تلاوت اسی صورت میں واجب ہو گا، جبکہ وہ اسے سمجھتا ہو،کیونکہ ترجمہ معنی کےاعتبار سے قرآن ہے اور الفاظ کے اعتبار سے قرآن نہیں ہے، لہٰذا جب سامع نے ترجمہ کو سمجھ لیا ، تو وہ ایک اعتبار (معنی کے اعتبار)سےقرآن پاک کو سننے والا ہوگیا اور ایک اعتبار (لفظ کے اعتبار) سے نہیں ،لہٰذا احتیاطاً اس پر سجدہ تلاوت واجب ہوگا،(اور مصنف رحمۃ اللہ علیہ کا قول:جب سامع کو خبر دے دی جائے کہ یہ آیتِ سجدہ کاترجمہ ہے)، لیکن جب اسے خبر نہ دی گئی، تو سامع پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہو گا ، کیونکہ علم یا اس کی دلیل کےبغیر اُسےکسی کام کا مکلف نہیں بنایا جاسکتا، لہٰذا اس عبارت سے یہ سمجھا جائے گا کہ صاحبین علیھما الرحمۃ کے قول کے مطابق سامع کا (آیتِ سجدہ کے معنی کو )سمجھنا اور (آیتِ سجدہ کے ترجمہ کو )جاننا دونوں (سجدہ تلاوت واجب ہونے کے لئے ) ضروری ہیں۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ485، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) جد الممتار علی رد المحتار میں لکھتے ہیں:
قولہ اذا فھم کان سامعاًللقرآن من وجہ (المعنی) دون وجہ (اللفظ ) فوجبت احتیاطاً بخلاف ما اذا لم یفھم فانہ لم یسمع القرآن اصلاً
ترجمہ:مصنف علیہ الرحمۃ کا قول کہ جب سامع نے آیت کا معنی سمجھ لیا، تووہ معنی کے اعتبار سے قرآن سننے والاہوگیا، نہ کہ لفظ کے اعتبار سے ، لہٰذا اس پر احتیاطاً سجدہ تلاوت واجب ہوگا، برخلاف اس کے، جب سامع نے آیت کا ترجمہ نہ سمجھا ، تو وہ قرآنِ پاک کو بالکل سننے والا نہ ہوا۔ (جد الممتار علی رد المحتار،جلد 03،صفحہ 556، 557، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) سے نظم کی صورت میں سوال ہوا کہ
عالمانِ شرع سے ہے اس طرح میراسوال، دیں جواب اس کا برائے حق مجھے وہ خوشخصال ،
گرکسی نے ترجمہ سجدہ آیت کی پڑھا، تب بھی سجدہ کرنا کیا اُس شخص پر واجب ہوا،
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نےنظم کی صورت میں جواب ارشاد فرمایا:
ترجمہ بھی اصل یہاں ہے وجہ سجدہ بالیقیں فرق یہ ہے فہم معنی اِس میں شرط اُس میں نہیں
آیت سجدہ سنی جاناکہ ہے سجدہ کی جا اب زباں سمجھے نہ سمجھے سجدہ واجب ہوگیا
ترجمہ میں اس زباں کا جاننا بھی چاہئے نظم ومعنی دوہیں ان میں ایک تو باقی رہے
تاکہ من وجہ تو صادق ہو سنا قرآن کو ورنہ اک موجِ ہوا تھی چھو گئی جو کان کو
ہے یہی مذہب بہ يفتٰی عليہ الاعْتِماَد شامی از فیض ونہر و اللہ اعلم بالرشاد
(فتاوی رضویہ، جلد08،صفحہ238،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
نوٹ:یونہی حاشیۃ الشرنبلالی علی دررالحکام شرح غرر الاحکام، الجوہرۃ النیرہ علی مختصر القدوری، نورالایضاح، منحۃ الخالق حاشیہ بحرالرائق، نہر الفائق شرح کنزالدقائق، مراقی الفلاح شرح نور الایضاح وغیرہاکتب فقہیہ میں صاحبین علیھما الرحمۃ کے قول کو معتمد علیہ قرار دیا گیا ہے۔
بہارِ شریعت میں جو مسئلہ فتاوٰی عالمگیری کے حوالے سے بیان ہوا ہے، وہ دراصل امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا قول قدیم ہے، حالانکہ فتاوٰی عالمگیری میں اسی مقام پر بعد میں صاحبین (امام ابویوسف و امام محمد رحمہما اللہ) کا قول بھی مذکور ہے، جو راجح، معتمد علیہ اور مفتٰی بہ ہے، جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
إذا قرأ آية السجدة بالفارسية فعليه وعلى من سمعها السجدة فهم السامع أولا إذا أخبر السامع أنه قرأ آية السجدة وعندهما إن كان السامع يعلم أنه يقرأ القرآن يلزمه وإلا فلا ، كذا في الخلاصة
ترجمہ:جب کوئی شخص فارسی زبان میں آیتِ سجدہ پڑھے تو اس پر اور سننے والوں پر سجدہ تلاوت لازم ہوجائے گا ،خواہ سننے والے نے اسے سمجھا ہو یا نہ سمجھا ہو، جبکہ پڑھنے والا سامع کو خبر دیدے کہ اس نے آیتِ سجدہ کی تلاوت کی ہے، جبکہ صاحبین علیہما الرحمہ کے نزدیک اگر سامع اس بات کو جانتا ہے کہ اس نے قرآن(سے آیتِ سجدہ کے ترجمہ) کی تلاوت کی ہے ،تو اس پر سجدہ تلاوت لازم ہوگا ورنہ نہیں،جیسا کہ خلاصہ میں مذکور ہے۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، جلد 01، صفحہ 133،مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: OKR-0026
تاریخ اجراء: 18 محرم الحرام 1447ھ / 14 جولائی 2025 ء