نماز میں آیت سجدہ سے پہلے سجدہ کرنا کیسا؟

نماز میں آیتِ سجدہ کے نشان سے پہلے ہی سجدہ تلاوت کر لیا تو نماز کا حکم؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اکیلے نماز پڑھتے ہوئے سورۃ النحل کی آیات جب تلاوت کیں، تو آیت نمبر 49

وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ وَّ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ

پڑھ کرسجدہ تلاوت ادا کرلیا،جبکہ قرآن پاک میں سجدہ کا نشان آیت نمبر 50

یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ

کے اختتام پرہے،اور اس آیت کے بعد سجدہ تلاوت نہیں کیا گیا۔سوال یہ ہے کہ کیا سجدہ تلاوت درست ادا ہوا یا نہیں؟اگردرست ادا نہیں ہوا، تو پھر کیا کرنا چاہیے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں ظاہرالروایہ مذہب کے مطابق

وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ

پر سجدہ تلاوت واجب ہوا،پس جس نے نماز میں

وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ

پر سجدہ کرلیا ،جبکہ اس آیت پر سجدہ نہیں بنتا تھا، تو اس نے ایک زائد سجدہ جان بوجھ کرکیا اور

وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ

پر سجدہ لازم ہوا تھا، مگر اس نے جان بوجھ کر نہیں کیا ،تو اس کی نماز واجب الاعادہ ہوئی، لہذا اسے چاہیے کہ وہ اس نماز کا اعادہ کرے۔

تفصیل اس میں یہ ہے کہ آیتِ سجدہ پڑھنے میں سجدہ، آیت کی کتنی مقدار پڑھنے پرواجب ہوتا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ اصل مذہب، ظاہرالروایہ،کثیر متون وشروحات اور محققین کا تائید یافتہ مذہب یہ ہے کہ جس آیت میں سجدہ کے الفاظ ہیں اس پوری ایک آیت کے پڑھنے سے، اسی طرح اگر سجدہ سے متعلقہ دو آیتیں ہیں ،تو ان پوری دو آیتوں کے پڑھنے سے سجدہ لازم ہوتا ہے، اس سے کم پڑھا تو سجدہ لازم نہیں ہوگا۔ بعض فقہاء نے اس بات کی بھی تصحیح کی ہے کہ سجدہ والا مادہ جن کلمات میں ہے، ان کلمات کو آگے اور پیچھے سے ملا کر پڑھنے سے سجدہ واجب ہوجاتا ہے، اگرچہ پوری آیت نہ پڑھی جائے۔

هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ

تک آیت پڑھنے میں اگرچہ سجدہ والا مادہ اور اس کے آگے پیچھے کے کلمات ادا ہوجاتے ہیں، مگر سجدہ تلاوت کی پوری آیات

وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ

تک بنتی ہیں۔

اب جو محل ایسا ہو کہ ظاہرالروایہ کے مطابق سجدہ واجب نہ ہونے کے باوجود، سجدہ کرلینے سے بھی کوئی حرج والی بات نہ ہو، تو وہاں بعض فقہاء کی تصحیح پر عمل کرلینے میں بھی حرج نہیں ہے، مگر پوچھی گئی صورت میں نماز کا معاملہ ہے اور نماز میں اگر سجدہ واجب نہیں ہوا،اس کے باوجود کرلیا ،تو ضرور یہ نقصان کا باعث ہے کہ جان بوجھ کر زائد سجدہ کرنے میں نماز واجب الاعادہ ہوجائے گی ،لہذا ایسے شخص کیلئے یہی حکم ہوگا کہ ظاہر الروایہ مذہب کے مطابق عمل کرتے ہوئے ایسی نماز کا اعادہ کرے۔

ظاہر الروایہ مذہب پر فقہائے کرام کی تصریحات:

چنانچہ مبسوط،کنزالدقائق، شرح وقایہ، نقایہ، ملتقی الابحر، تنویر الابصار،خانیہ، فتاوی ظہیریہ وغیرہ کتب فقہیہ میں ہے:

و النظم للاول: من قرء آیۃ السجدۃ او سمعھا وجب علیہ ان یسجد عندنا

ترجمہ: جس نے آیت سجدہ کو پڑھا یا اسے سنا، ہمارے نزدیک اس پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔ (کتاب المبسوط، جلد 2، صفحہ 6، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

آیت سے مراد وہ حصہ ہےجو ایک یا دو آیاتِ سجدہ پر مشتمل ہو، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں:

و ان المراد بالاٰیۃ مایشمل الاٰیۃ والاٰیتین اذا کانت الثانیۃ متعلقۃ بالاٰیۃ التی ذکر فیھا حرف السجدۃ ۔۔۔۔۔لان الوجوب لایکون الابعد وجود سببہ فلو سجدھا بعد الاٰیۃ الاولی لا یکفی لانہ یکون قبل سببہ وبہ ظھران مافی السراج خلاف المذھب الذی مشی علیہ الشراح و المتون تامل

ترجمہ: آیت سے مراد وہ حصہ ہے جو ایک آیت یا دو آیات پر مشتمل ہو جبکہ دوسری آیت اس پہلی سے متعلق ہو جس میں حرف سجدہ ہے۔ کیونکہ وجوب اپنے سبب کے بعد ہوتا ہے اگر کسی نے پہلی آیت کے بعد سجدہ کرلیا تو کافی نہیں ہوگا ،کیونکہ یہ اس کے سبب سے پہلے ہوگا اور اس سے ظاہر ہوگیا کہ سراج میں جوکچھ ہے وہ اس مذہب کے خلاف ہے جس پر متون اور شروحات ہیں۔ (ردالمحتار علی الدر، جلد 2، صفحہ 576، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

سورہ نحل کا سجدہ

وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ

کے اختتام پر ہوگا،چنانچہ حلبۃ المجلی، حلیۃ المحلی، امداد الفتاح، حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ہے:

و النظم للاول:  ھی واجبۃ فی الاعراف عقب اٰخرھا وفی الرعد عقب قولہ ”وظلالھم بالغدووالاٰصال“ وفی النحل عقب قولہ ”ویفعلون مایؤمرون“

ترجمہ: سجدہ تلاوت سورہ اعراف میں آخری آیت کے بعد، سورہ رعد میں

ظلالھم بالغدو و الاٰصال

کے بعد اور سورہ نحل میں

و یفعلون ما یومرون

کے بعد واجب ہے۔(حلبۃ المجلی و بغیۃ المھتدی شرح منیۃ المصلی، جلد 2، صفحہ 579، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

سجدہ تلاوت کس قدر قراءت سے واجب ہوتا ہے،اس کے متعلق اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں:”قابل غور یہ بات ہے کہ سجدہ تلاوت کس قدر قرأت سے ہوتا ہے اصل مذہب وظاہرالروایہ میں ہے کہ ساری آیت بتما مہااس کا سبب ہے یہاں تک کہ اگر ایک حرف باقی رہ جائے گا سجدہ نہ آئے گا مثلاً اگر حج میں

الم تر ان ﷲ سے ان ﷲ یفعل ما

تک پڑھ گیا سجدہ نہ ہوا جب تک”یشاء“ بھی نہ پڑھے، اور یہی مذہب آثار صحابہ عظام وتابعین کرام سے مستفاد اور ایسا ہی امام مالک وامام شافعی وغیرہما ائمہ کا ارشاد بلکہ ائمہ متقدمین سے اس بارے میں اصلاً خلاف معلوم نہیں کتب اصحاب سے متون کہ نقل مذہب کے لئے موضوع ہیں قاطبۃً اسی طرف گئے اور دلائل وکلمات عامہ شروح کہ تحقیق وتنقیح کی متکفل ہیں اسی پر مبنی ومتبنی ہوئے اور اکابر اصحاب فتاوٰی بھی ان کے ساتھ ہیں۔۔۔۔ ہاں بعض علمائے متاخرین کا یہ مذہب ہے کہ آیت سجدہ سے صرف دو کلمے پڑھنا موجب سجدہ ہے جن میں ایک وہ لفظ جس میں ذکر سجود ہے جیسے آیت سوال میں لفظ واسجد اور دوسرا اُس کے قبل یا بعد کا جیسے اُس میں

واقترب

یہ مذہب اگر چہ ظاہر الروایہ بلکہ روایات نوادر سے بھی جدا، اور مسلک ائمہ سلف وتصریح وتلویح متون و شروح کے بالکل خلاف ہے، مگر سراج وہاج وجوہرہ نیرہ ومراقی الفلاح میں اس کی تصحیح واقع ہوئی۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 223- 229، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

جو محل ایسا ہو کہ ظاہرالروایہ کے مطابق سجدہ واجب نہ ہونے کے باوجود ،سجدہ کرلینے سے بھی کوئی حرج والی بات نہ ہو تو وہاں بعض فقہاء کی تصحیح پر عمل کرلینے میں بھی حرج نہیں ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: بالجملہ اصل مذہب معلوم ہے تاہم محل وہ ہے کہ سجود میں ضررنہیں اور برتقدیر وجوب ترک معیوب اور صریح تصحیح جاذب قلوب، لہذا انسب یہی ہے کہ اسی مذہب مصحح پر کاربند ہو کر شعر مذکور کی سماعت و قراءت پر سجدہ کرلیں اسی طرح ہر نظم ونثر میں جہاں آیت سجدہ سے صرف سجدہ مع کلمہ مقارنہ پڑھا جائے سجدہ بجالائیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 232، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: OKR-0045

تاریخ اجراء: 12 صفر المظفر 1447ھ / 07اگست 2025 ء