دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک حافظ صاحب نے تراویح پڑھاتے ہوئے سورۃ النمل آیت نمبر ۲۵ یعنی’’اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِ جُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ(25)‘‘ پر سجدہ تلاوت کردیا اور پھر اس کے بعدآیت نمبر ۲۶ یعنی’’اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ(26)‘‘ سے تلاوت شروع کی اور اس پر سجدہ نہ کیا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ قرآن پاک میں سورہ نمل میں سجدہ تلاوت کی علامت تو دوسری آیت کے بعد لکھی ہوئی ہے، تو کیا حافظ صاحب کا آیت نمبر ۲۵ پر سجدہ تلاوت کرنے سے سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سورہ نمل کی آیت نمبر 25 بھی اگرچہ آیتِ سجدہ ہی ہے لیکن اصح قول کے مطابق دونوں آیتوں (۲۵ اور ۲۶) کی تلاوت کے بعد سجدہ تلاوت واجب ہوتا ہے، لہذا پہلی آیت کے بعد جو سجدہ تلاوت ادا کیا گیا، تو وہ ادا نہ ہوا۔ پھر ظاہر ہے کہ حافظ صاحب نے اپنے گمان میں یہ سمجھا کہ سجدہ تلاوت ادا ہوگیا، توانہوں نے دوسری آیت پڑھنے کے بعد سجدہ تلاوت نہ کیا، جبکہ نماز میں سجدہ تلاوت کرنا نماز کے واجبات سے ہے، لہذا یہ جان بوجھ کر سجدہ تلاوت نہ کرنا ہوا جس سے قصداً واجب ترک ہوکر نماز واجب الاعادہ ہوئی، لہذا حافظ صاحب اور مقتدیوں سمیت سب پر اس نماز کا اعادہ واجب ہوگا۔ نیز اب وہ چھوٹ جانے والا سجدہ ادا نہیں ہوسکتا کہ ہر وہ سجدہ جو نماز میں واجب ہو وہ نماز میں ہی ادا کرنا ہوتا ہے، اگر وہ نماز میں کسی صورت ادا نہ ہوسکے تو وہ ساقط ہوجاتا ہے، اس کی قضا نہیں ہوسکتی۔
سورہ نمل کی آیت نمبر ۲۵ بھی آیت سجد ہ ہے اور اکثر فقہائے کرام نے اس پر سجدہ تلاوت کو واجب کیا ہے، چنانچہ البنایہ شرح الہدایہ، فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’واللفظ للاول: ’’(والنمل) ش: عند قَوْله تَعَالَى: {وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ} [النمل: 25] (النمل: الآية 25)، على قراءة العامة، وقال الشافعي ومالك عند قوله: {رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} [النمل: 26] (النمل: الآية 26)‘‘
ترجمہ: اور سورۃ نمل میں سجدہ عامہ قراءت کے مطابق اللہ عزوجل کے فرمان: "وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ" (النمل: 25)، پر ہے اور امام شافعی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہما نے ارشاد فرمایا کہ سجدہ "وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ" (النمل: 26) پر ہے۔ (البنایہ شرح الھدایہ، جلد2، صفحہ655، دار الكتب العلمية، بيروت)
حلبۃ المجلی شرح منیۃ المصلی میں ہے:
’’وفي النمل عقب قوله: ﴿وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ) [النمل: 25]، وهو معزو إلى أكثر الفقهاء، وقال مالك عند قوله: ورَبُّ العرش العظيم [النمل: 26]. وذكر النووي: أنه الصواب، وأنه مذهب الشافعي كما صرحت به أصحابه ونقل الزجاج والفراء: أن السجدة على قراءة الكسائي عند قوله : أَلَّا يَسْجُدُوا [النمل: 25] والا مخففة عنده. فأما على قراءة الأكثرين إلا مشددة، فلا ينبغي أن تكون سجدة؛ لأنها تتمة خير الهدهد عن حال بلقيس وقومها، بخلاف المخففة فإنها أمر مستأنف من الله تعالى بالسجود والتقدير: ألا يا قوم اسجدوا. قال السروجي وغيره وهذا ليس بصحيح؛ إذ المشددة هي قراءة السواد الأعظم، وفيها ذم على تركه كسجدة الفرقان، والانشقاق، ويجوز أن تكون كلتا القراءتين حكاية عن خبر الهدهد ولا يمنع ذلك من أن تكون مسجدة‘‘
ترجمہ: اور سورۃ نمل میں سجدہ اللہ عزوجل کے اس فرمان کے بعد ہے:"وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ" (النمل: 25)، اور یہی قول اکثر فقہاء کی طرف منسوب ہے۔ امام مالک کے نزدیک سجدہ "وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ" (النمل: 26) پر ہے۔ امام نووی نے ذکر کیا کہ یہی درست قول ہے اور یہی امام شافعی کا مسلک ہے، جیسا کہ ان کے اصحاب نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ زجاج اور فراء نے نقل کیا ہے کہ سجدہ کسائی کی قراءت میں "أَلَّا يَسْجُدُوا" (النمل: 25) کے مقام پر ہے، اور ان کے نزدیک "ألا" مخففہ ہے۔ بہرحا ل اکثریت کی قراءت میں " ألا " مشددہ ہے، تو یہاں سجدہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ ہدہد کی بلقیس اور اس کی قوم کے بارے میں خبر کا تتمہ ہے۔ جبکہ مخففہ میں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیا حکم ہے کہ "اے قوم! سجدہ کرو"۔ سروجی اور دیگر علماء نے کہا کہ یہ درست نہیں، کیونکہ مشددہ قراءت جمہور کی قراءت ہے، اور اس میں سجدہ ترک کرنے پر مذمت موجود ہے، جیسے سورہ فرقان اور سورہ انشقاق میں۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ دونوں قراءتیں ہدہد کی خبر کی حکایت ہوں، اورمانع نہیں کہ اس کے باوجود یہ آیت سجدہ والی ہو۔ (حلبۃ المجلی شرح منیۃ المصلی، جلد2، صفحہ579، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
لیکن چونکہ سجدہ تلاوت پوری آیتِ سجدہ کی تلاوت کی بعد ہی واجب ہوتا ہے، اور آیت سے مراد ایسی دو آیتیں بھی ہیں جس میں دوسری والی آیت پہلی والی آیت سے متعلق ہو جس میں سجدے کا لفظ مذکور ہو۔ اور سورہ نمل کی آیت نمبر ۲۶’’ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘بھی اپنے سے پہلی والی آیت سے متعلق ہے جس میں سجدے کا لفظ ’’اَلَّا یَسْجُدُوْا‘‘ مذکور ہے، لہذا یہاں سجدہ تلاوت دونوں آیتوں (آیت نمبر ۲۵ اور ۲۶) کی تلاوت کے بعد ہی واجب ہوگا۔
چنانچہ تنوير الابصار مع در مختار میں ہے: ’’(يجب) بسبب (تلاوة آية)‘‘ ترجمہ: سجدہ تلاوت، آیت کی تلاوت کے سبب(بھی) واجب ہوتا ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد2، صفحہ694، دار المعرفۃ، بیروت)
سجدہ تلاوت کا سبب ایک مکمل آیت کی تلاوت بھی ہے، اور یہ ان دو آیتوں کو بھی شامل ہے جس میں دوسری آیت اپنے سے پہلے والی اس آیت سے متعلق ہو جس میں سجدے کا لفظ مذکور ہو، چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
’’ أن السبب تلاوة آية تامة كما هو ظاهر إطلاق المتون وأن المراد بالآية ما يشمل الآية والآيتين إذا كانت الثانية متعلقة بالآية التي ذكر فيها حرف السجدة‘‘
ترجمہ: سجدہ تلاوت کا سبب پوری آیت کی تلاوت کرنا ہے، جیسا کہ متون کے اطلاق سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور یہاں آیت سے مراد وہ آیت یا دو آیتیں ہیں جبکہ دوسری آیت پہلی آیت سے متعلق ہو جس میں سجدے کا لفظ مذکور ہو۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، جلد2، صفحہ695، دار المعرفۃ، بیروت)
سورہ نمل کی آیت نمبر ۲۶ اپنے سے پہلی والی آیت نمبر ۲۵سے متعلق ہے، اور دونوں کی تلاوت سے سجدہ تلاوت واجب ہوگا، یہی وجہ ہے کہ فقہائے احناف نے کتب فقہ میں سجدہ تلاوت کے مقامات کے بیان میں سورہ نمل کے مقام کو ذکر کرتے ہوئے واضح طور پر دونوں آیتیں(۲۵ اور ۲۶) ذکر کی ہیں۔
چنانچہ تبیین الحقائق، رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے:
واللفظ لرد المحتار: ’’السجود فی سورۃ النمل عند قولہ تعالی’’رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘
ترجمہ: سورہ نمل میں اللہ تعالی کے فرمان ’’رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، جلد2، صفحہ694، دار المعرفۃ، بیروت)
حاشیۃ الشرنبلالی میں ہے:
’’(قوله والنمل) أقول ويجب فيها عند قوله تعالى {رب العرش العظيم} [النمل: 26]‘‘
ترجمہ: اور ان کا قول کہ سورہ نمل تو میں کہتا ہوں کہ اس میں ’’رب العرش العظیم‘‘ پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔ (حاشیۃ الشرنبلالی، جلد1، صفحہ155، داراحیاء کتب العربیہ)
مراقی الفلاح، امدادالفتاح میں ہے:
واللفظ للاول:’’والنمل"{ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ، اَللهُ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ }" ‘‘
ترجمہ: اور سورہ نمل کی آیت ": أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ، اَللّٰهُ لا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ" پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔ ( مراقی الفلاح، جلد1، صفحہ185، المکتبۃ العصریہ)
طوالع الانوار میں ہے:
’’وفی النمل عند قولہ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ الی قولہ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ‘‘
ترجمہ: اور سورہ نمل میں اللہ تعالی کے اس فرمان: أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ سے رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ: تک سجدہ تلاوت واجب ہے۔ (طوالع الانوار، جلد2، صفحہ409، مخطوط)
سجدہ تلاوت کے چودہ (14)مقامات میں سورہ نمل کا مقامِ سجدہ بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں لکھتے ہیں: ’’ سورۂ نمل میں یہ آیت
(اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوۡنَ ﴿۲۵﴾ اَللّٰهُ لا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴿ٛ ۲۶﴾ ۔ ‘‘ (بہار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ727، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نیز آیت نمبر ۲۶ ’’ اَللهُ لا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ‘‘ پر سجدہ تلاوت واجب ہونے کی لفظِ اصح کے ساتھ واضح ترجیح بھی موجود ہے، چنانچہ فتح باب العنایہ میں ہے:
’’ والصحيح أن محل السجدة على جميع القراءات عند قوله: {وما يُعْلِنُون} بل الأصح أنه عند قوله: {رَبُّ العَرْشِ العَظِيمِ} ‘‘
ترجمہ: اور صحیح یہ ہے کہ تمام قراءت پر سجدے کی جگہ اللہ تعالی کا فرمان’’ وما يُعْلِنُون ‘‘ ہے بلکہ اصح یہ ہے کہ سجدے کی جگہ اللہ تعالی کے فرمان’’رَبُّ العَرْشِ العَظِيمِ ‘‘ پر ہے۔ (فتح باب العنایہ، جلد1، صفحہ375، مطبوعہ بیروت)
پھر احتیاط بھی یہی ہے کہ دوسری آیت(آیت ۲۶) کے بعد ہی سجدہ تلاوت واجب ہو کیونکہ " رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ" تک سجدے کی تاخیر میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر بالفرض سجدہ تلاوت "رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ" پر واجب ہو تو" وَ مَا تُعْلِنُوْنَ " پر سجدہ تلاوت کرنے میں قبل از وجوب سجدہ ہو جائے گا جو کہ نماز میں نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ سورہ حم السجدۃ میں سجدہ تلاوت واجب ہونے کے مقام میں صحابہ کرام کے نزدیک اختلاف ہے، بعض كے نزدیک’’ان کتنم ایاہ تعبدون ‘‘(37 )پر سجدہ تلاوت واجب ہے اور بعض کےنزدیک اس کے بعد والی آیت ’’وهم لا يسأمون‘‘(38)پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔ ہمارے فقہائے کرام نے’’وهم لا يسأمون ‘‘پر سجدہ تلاوت کے واجب ہونے کا قول کیا ہےاور وجہ یہی ارشاد فرمائی ہے کہ اس میں احتیاط ہے کیونکہ اگر پہلی آیت پر سجدہ واجب ہو تو ایک آیت کی تاخیر سے کوئی حرج نہیں، لیکن اگر دوسری آیت پر سجدہ تلاوت واجب ہو تو پہلی آیت پر سجدہ واجب ہونے سے پہلے سجدہ تلاوت ہوجائے گا جو کہ درست نہیں۔
چنانچہ بدائع الصنائع، رد المحتار علی الدر المختار میں ہے: واللفظ للاول: ’’ثم في سورة حم السجدة، عندنا السجدة عند قوله {وهم لا يسأمون} [فصلت: 38] وهو مذهب عبد الله بن عباس ووائل بن حجر، وعند الشافعي عند قوله {إن كنتم إياه تعبدون} [فصلت: 37] وهو مذهب علي - رضي الله عنه - واحتج بما روي عن ابن مسعود وابن عمر - رضي الله عنهما - هكذا، ولأن الأمر بالسجود ههنا فكان السجود عنده.(ولنا) أن السجود مرة بالأمر، ومرة بذكر استكبار الكفار فيجب علينا مخالفتهم، ومرة عند ذكر خشوع المطيعين فيجب علينا متابعتهم وهذه المعاني تتم عند قوله {وهم لا يسأمون} [فصلت: 38] فكان السجود عنده أولى ولأن فيما ذهب إليه أصحابنا أخذا بالاحتياط عند اختلاف مذاهب الصحابة - رضي الله عنهم - فإن السجدة لو وجبت عند قوله {تعبدون} [فصلت: 37] فالتأخير إلى قوله {لا يسأمون} [فصلت: 38] لا يضر ويخرج عن الواجب.ولو وجبت عند قوله {لا يسأمون} [فصلت: 38] لكانت السجدة المؤداة قبله حاصلة قبل وجوبها ووجود سبب وجوبها فيوجب نقصانا في الصلاة ولم يؤد الثانية فيصير المصلي تاركا ما هو واجب في الصلاة، فيصير النقص متمكنا في الصلاة من وجهين ولا نقص فيما قلنا ألبتة وهذا هو أمارة التبحر في الفقه والله الموفق‘‘ترجمہ: پھر سورۂ حم السجدہ (یعنی سورۂ فصلت) میں ہمارے نزدیک سجدہ اس آیت "وهم لا يسأمون" (فصلت: 38) پر ہے، اور یہی عبداللہ بن عباس اور وائل بن حجر کا مسلک ہے۔ جبکہ امام شافعی کے نزدیک سجدہ اس آیت "إن كنتم إياه تعبدون" (فصلت: 37) پر ہے، اور یہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مسلک ہے، اور انہوں نے اس پر ابن مسعود اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے استدلال کیا ہے، اور اس لئے بھی کیونکہ یہاں سجدے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا سجدہ اسی آیت پر ہونا چاہیے۔ ہمارے نزدیک دلیل یہ ہے کہ سجدہ بعض اوقات حکم کی وجہ سے واجب ہوتا ہے، بعض اوقات کفار کے تکبر کے ذکر پر ان کی مخالفت کی بنا پر واجب ہوتا ہے، اور بعض اوقات فرماں برداروں کے خشوع کے ذکر پر واجب ہوتا ہے تو ہم پر ان کی پیروی کرنا واجب ہوتا ہے۔ یہ تمام معانی آیت "وهم لا يسأمون" (فصلت: 38) پر مکمل ہوتے ہیں، لہٰذا اس مقام پر سجدہ کرنا اولیٰ ہے۔ اور اس میں جس مؤقف كو ہمارے فقہاء نے اختیار کیا ہےتو وہ اختلافِ صحابہ کے وقت احتیاط کو حاصل کرنا ہے کیونکہ اگر سجدہ "تعبدون" (فصلت: 37) پر واجب ہوتا ہو تو اسے "لا يسأمون" (فصلت: 38) تک مؤخر کرنا کوئی نقصان دہ نہ ہوگا، اور واجب ادا ہو جائے گا۔ اور اگر سجدہ "لا يسأمون" (فصلت: 38) پر واجب ہو (اور اسے پہلے یعنی "تعبدون" پر ادا کر لیا جائے) تو سجدہ وجوب اور سبب وجوب کے پائے جانے سے پہلے ادا ہو جائے گا تو یہ نماز میں نقص پیدا کردےگا اور اگر دوبارہ سجدہ نہیں کیا گیا تو نمازی، نماز میں ایک واجب کو ترک کرنے والا ہو جائے گا، جس کی وجہ سے نماز میں دو طریقوں سے نقص پیدا ہو جائے گا۔ جبکہ ہمارے بیان کردہ مسلک میں کوئی نقص نہیں، اور یہی فقہ میں گہرے فہم کی علامت ہے، اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد1، صفحہ194، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
اشكال : کتب فقہ میں تو اس بات کی صراحت ہے کہ اگر آیت سجدہ میں صرف سجدے کا حرف اپنے سے پہلے یا بعد والے حرف سے ملا کر پڑھ لیا تو اسی سے سجدہ تلاوت واجب ہوجاتا ہے۔ اور صورت مسئولہ میں تو آیت نمبر ۲۵ پوری ہی تلاوت کرلی گئی ہے، تو اس میں بدرجہ اولی سجدہ تلاوت واجب ہوکر ادا ہوجانا چاہئے؟
جواب: یہ بعض علمائے متاخرین کا مذہب ہے جو کہ ظاہر الروایہ کے خلاف ہے، لہذا عمل ظاہر الروایہ کے مطابق ہی ہوگا کہ ایک پوری آیت کی تلاوت سے سجدہ تلاوت واجب ہوگا جو کہ اوپر تفصیل سے بیان کردیا گیا، ہاں اس مذہب کے پیش نظر اتنا حکم ضرور ہوگا کہ جہاں آیتِ سجدہ میں صرف سجدے کا لفظ اپنے سے پہلے یا بعد والے لفظ سے ملا کر پڑھا جائے، یا کسی جگہ صرف اتنا ہی حصہ لکھا ہو تو انسب یہی ہے کہ اتنی ہی مقدار کے پڑھنے پر سجدہ تلاوت کرلیا جائے کہ سجدہ کرنے میں کوئی نقصان تو نہیں، مگر آیت سجدہ میں سے صرف اتنے سے ہی سجدہ تلاوت واجب ہوجائے، تو ایسا ہرگز نہیں۔
چنانچہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ اصل مذہب وظاہرالروایہ میں ہے کہ ساری آیت بتما مہااس کا سبب ہے یہاں تک کہ اگر ایک حرف باقی رہ جائے گا سجدہ نہ آئے گا۔ اور یہی مذہب آثار صحابہ عظام وتابعین کرام سے مستفاد اور ایسا ہی امام مالک وامام شافعی وغیرہما ائمہ کا ارشاد بلکہ ائمہ متقدین سے اس بارے میں اصلاً خلاف معلوم نہیں کتب اصحاب سے متون کہ نقل مذہب کے لئے موضوع ہیں قاطبۃً اسی طرف گئے اور دلائل وکلمات عامہ شروح کہ تحقیق وتنقیح کی متکفل ہیں اسی پر مبنی ومتبنی ہوئے اور اکابر اصحاب فتاوٰی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ۔ ۔ ہاں بعض علمائے متاخرین کا یہ مذہب ہے کہ آیت سجدہ سے صرف دو کلمے پڑھنا موجب سجدہ ہے جن میں ایک وہ لفظ جس میں ذکر سجود ہے اور دوسرا اُس کے قبل یا بعد کا۔ ۔ ۔ یہ مذہب اگر چہ ظاہر الروایہ بلکہ روایات نوادر سے بھی جدا، اور مسلک ائمہ سلف وتصریح وتلویح متون و شروح کے بالکل خلاف ہے مگر سراج وہاج وجوہرہ نیرہ ومراقی الفلاح میں اس کی تصحیح واقع ہوئی‘‘۔
’’اقول(اعلی حضرت فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ) رہیں تصحیحیں وہ تعدد کتب سے متکثر نہیں ہوتیں کہ جسے منصب اجتہاد فتوٰی نہیں اس کا ھوالصحیح (یہی صحیح ہے۔ ت) کہنا نقل محض وتقلید مجرد ہے، پھر خادمِ فقہ جانتا ہے کہ اجماع متون کی شان عظیم ہے خصوصاً جبکہ جماہیر شراح وکبرٰی فتاوٰی بھی ان کے ساتھ ہوں یہاں تک بعض صریح تصحیحوں کو اسی وجہ سے نہ مانا گیا کہ مخالف متون ہیں کما بیناہ فی کتاب النکاح من العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ علی الخصوص ( جیسا کہ ہم نے اس کا تفصیلی بیان ''العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویہ'' کے کتاب النکاح میں خصوصی طور پر کیا ہے۔ ت) جبکہ وہ مذہب، ائمہ مذہب سے منقول بھی نہیں صرف بعض مشائخ کا مسلک ہے اور حکم اُس قبیل سے نہیں جو اختلاف زمانہ سے بدل جائے، ایسی حالت میں اس تصحیح پر تعویل واعتماد ضروری ہونا بغایت حیزِ منع وانکار (یعنی انتہائی حد تک ممنوع اور انکار کے دائرے)میں ہے۔ ۔ ۔ بالجملہ اصل مذہب معلوم ہے تاہم محل وہ ہے کہ سجود میں ضررنہیں اور برتقدیر وجوب ترک معیوب اور صریح تصحیح جاذب قلوب، لہذا انسب یہی ہے کہ اسی مذہب مصحح پر کاربند ہو کر شعر مذکور کی سماعت وقرائت پر سجدہ کرلیں اسی طرح ہر نظم ونثر میں جہاں آیت سجدہ سے صرف سجدہ مع کلمہ مقارنہ پڑھا جائے سجدہ بجالائیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ223-232، رضافاؤنڈیشن، لاہور)
نماز میں فی الفور سجدہ تلاوت کرنا نماز کے واجبات میں سے ہے، چنانچہ رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے:
’’إن كانت صلوية فعلى الفور ح ثم تفسير الفور عدم طول المدة بين التلاوة والسجدة بقراءة أكثر من آيتين أو ثلاث على ما سيأتي "حلية"۔ (قوله ويأثم بتأخيرها إلخ) لأنها وجبت بما هو من أفعال الصلاة. وهو القراءة وصارت من أجزائها فوجب أداؤها مضيقا كما في البدائع ولذا كان المختار وجوب سجود للسهو لو تذكرها بعد محلها كما قدمناه في بابه عند قوله بترك واجب فصارت كما لو أخر السجدة الصلبية عن محلها فإنها تكون قضاء“
ترجمہ: اگر نماز میں آیتِ سجدہ تلاوت کی ہو تو نمازی پر فوراً سجدہ کرنا لازم ہے "حلبی" پھر فوراً کی تفسیر یہ ہے کہ تلاوت اور سجدے کے درمیان دو یا تین آیات کی قراءت سے زائد مقدار وقفہ نہ ہو، جیسا کہ عنقریب یہ بات آئے گی "حلیہ"۔ ان کا قول کہ اس کی تاخیر کے سبب گنہگار ہوگا کیونکہ سجدہ تلاوت افعالِ نماز کے سبب واجب ہوا اور وہ قراءت ہے، لہذا یہ سجدہ تلاوت نماز کا جزء بن گیا ہے پس اسے بغیر تاخیر کے ادا کرنا واجب ہے جیسا کہ بدائع میں ہے، یہی وجہ ہے کہ مختار قول کے مطابق اگر سجدہ تلاوت اپنے محل کے بعد یاد آیا تو نمازی پر سجدہ سہو واجب ہوگا جیسا کہ یہ بات ہم نے ماقبل سہو کے باب میں "بترك واجب" کے تحت بیان کی ہے۔ (رد المحتار مع الدر المختار، جلد2، صفحہ704، دار المعرفۃ، بیروت)
در مختار مع رد المحتار میں ہے:
’’(یجب۔ ۔ ۔ بترك واجب) أي من واجبات الصلاة الأصلية لا كل واجب إذ لو ترك ترتيب السور لا يلزمه شيء مع كونه واجبا بحر. ويرد عليه ما لو أخر التلاوية عن موضعها فإن عليه سجود السهو كما في الخلاصة جازما بأنه لا اعتماد على ما يخالفه وصححه في الولوالجية أيضا. وقد يجاب بما مر من أنها لما كانت أثر القراءة أخذت حكمها تأمل‘‘
ترجمہ: یعنی سجدہ سہو (بھول کر)واجب کے ترک سے واجب ہوتا ہے یعنی نماز کے اصل واجبات میں سے کسی واجب کے ترک سے، نہ کہ ہر واجب کے ترک سے۔ کیونکہ اگر کوئی سورتوں کی ترتیب کو چھوڑ دے (یعنی سورتوں کو ترتیب کے خلاف پڑھے)، تو اس پر کچھ لازم نہیں آتا، حالانکہ وہ واجب ہے "بحر"۔ اور اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اگر کسی نے سجدہ تلاوت کو اس کے اصل مقام سے مؤخر کر دیا تو اس پر سجدۂ سہو واجب ہو جاتا ہے، جیسا کہ "خلاصہ" میں قطعی طور پر کہا گیا ہے کہ جو اس کے خلاف کہے، اس پر اعتماد نہیں۔ اور "الولوالجیۃ" میں بھی اس کو صحیح قراردیا ہے۔ تو اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے (جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے) کہ جب سجدہ تلاوت قراءت کا اثر ہے(کہ قراءت سے ہی سجدہ تلاوت واجب ہوتا ہے )تو اس کیلئے قراءت کا ہی حکم لیا جائے گا۔ غور و فکر کرو۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد2، صفحہ655، 651، دار المعرفۃ، بیروت)
اگر کوئی بھول کر سجدہ تلاوت کرنے میں تاخیر کردے تو اس پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے، چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
”وفي الولوالجية المصلي إذا تلا آية السجدة ونسي أن يسجد لها ثم ذكرها وسجدها وجب عليه سجود السهو؛ لأنه تارك للوصل وهو واجب وقيل: لا سهو عليه والأول أصح، كذا في التتارخانية“
ترجمہ: ولوالجیہ میں ہے کہ نمازی نے آیتِ سجدہ تلاوت کی اور سجدہ تلاوت کرنا بھول گیا پھر اسے یاد آیا اور اس نے سجدہ تلاوت کرلیا، تو اُس پر سجدہ سہو واجب ہوگا، کیونکہ اُس نے بلا تاخیر فوراً سجدہ تلاوت کرنے کو(سہواً )ترک کیا ہے اور یہ واجب ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اُس پر سجدہ سہو نہیں ہے اور پہلا قول اصح ہے، ایسا ہی تاتارخانیہ میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد1، صفحہ 127، 126، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
اوپر رد المحتار اور پھر یہاں فتاوی عالمگیری کا جزئیہ جس میں بھول کر تاخیر کے سبب سجدہ سہو کو لازم قرار دیا گیا ہے اور قراءت کے اثر کی وجہ سے قراءت کی طرح اس کیلئے بھی واجب اصلی ہونے کا حکم لیا گیا ہے۔ لہذا اس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز میں فی الفور سجدہ تلاوت کرنا نماز کے واجبات میں سے ہے کہ سجدہ سہو نماز کے واجبات کو ہی بھول کر ادا نہ کرنے کے سبب لازم ہوتا ہے، لہذا جان بوجھ کر تاخیر کے سبب نماز کے واجب الاعادہ ہونے کا حکم ہوگا۔
جان بوجھ کر سجدہ تلاوت نہ کرنے اور سلام پھیردینے کی وجہ سے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی، چنانچہ رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے:
’’لو سلم ذاكرا أن عليه سجدة تلاوة أو قراءة التشهد الأخير سقطت عنه لأن سلامه عمد فيخرجه من الصلاة. ولا تفسد صلاته لأنه لم يبق عليه ركن من أركان الصلاة بل تكون ناقصة لترك الواجب‘‘
ترجمہ: اگر کوئی شخص سلام پھیر دے اس حال میں کہ اسے یاد ہو کہ اس پر سجدۂ تلاوت یا آخری تشہد پڑھنا باقی ہے، تو وہ (سجدہ یا تشہد) اس سے ساقط ہو جائے گا، کیونکہ اس کا سلام جان بوجھ کر تھا، تو وہ سلام اسے نماز سے باہر کر دے گا، اور اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ اس پر نماز کے ارکان میں سے کوئی رکن باقی نہیں رہا، بلکہ واجب کے چھوڑنے کی وجہ سے وہ نماز ناقص ہوگی۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، جلد2، صفحہ673، دارالمعرفۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’سجدۂ تلاوت باقی تھا یا قعدۂ اخیرہ میں تشہد نہ پڑھا تھا مگر بقدر تشہد بیٹھ چکا تھا اور یہ یاد ہے کہ سجدۂ تلاوت یا تشہد باقی ہے مگر قصداً سلام پھیر دیا تو سجدہ ساقط ہوگیا اور نماز سے باہر ہوگیا، نماز فاسد نہ ہوئی کہ تمام ارکان ادا کر چکا ہے مگر بوجہ ترک واجب مکروہ تحریمی ہوئی۔ ‘‘ (بہار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ717، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
جان بوجھ کر واجب کے ترک سے نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے، جیساکہ درمختار میں ہے:
’’تعاد وجوبا فی العمد والسھو إن لم یسجد‘‘
ترجمہ: جان بوجھ کر واجب ترک کرنے اور بھول کر ترک کرنے کی صورت میں سجدہ نہ کرنے سے نماز کا اعادہ واجب ہے۔ (درمختار، جلد2، مطلب: واجبات الصلوۃ، صفحہ181، دارالمعرفۃ، بیروت)
اگر نماز میں سجدہ تلاوت واجب ہوا اور کسی صورت ادا نہ ہوسکا، تو وہ ساقط ہوجائے گا، چنانچہ تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:
’’(ولو تلاها في الصلاة سجدها فيها لا خارجها) لما مر. وفي البدائع: وإذا لم يسجد أثم فتلزمه التوبة‘‘
ترجمہ: اور اگر نماز میں اس آیت کو پڑھے تو سجدہ نماز ہی میں کرے، نہ کہ نماز سے باہر جیسا کہ گزرا۔ بدائع الصنائع میں ہے: اور اگر سجدہ نہ کیا تو گناہگار ہوگا، لہٰذا اس پر توبہ لازم ہوگی۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے:
’’أفاد أنه لا يقضيها. قال في شرح المنية وكل سجدة وجبت في الصلاة ولم تؤد فيها سقطت أي لم يبق السجود لها مشروعا لفوات محله أقول: وهذا إذا لم يركع بعدها على الفور وإلا دخلت في السجود وإن لم ينوها كما سيأتي وهو مقيد أيضا بما إذا تركها عمدا حتى سلم وخرج من حرمة الصلاة. أما لو سهوا وتذكرها ولو بعد السلام قبل أن يفعل منافيا يأتي بها ويسجد للسهو كما قدمناه‘‘
ترجمہ: اس نے فائدہ دیا کہ وہ اسے قضا نہیں کرے گا۔ شرح منیہ میں فرمایا کہ ہر وہ سجدہ جو نماز میں واجب تھا لیکن ادا نہ کیا گیا تو وہ ساقط ہو گیا یعنی محل (وقت) کے فوت ہونے کی وجہ سے سجدہ کرنا مشروع (جائز) نہیں رہتا۔ میں کہتا ہوں: یہ اس صورت میں ہے کہ جب سجدہ چھوڑنے کے بعد فوراً رکوع نہ کیا ہو، ورنہ وہ سجدے میں داخل ہوجائے گا (اور نماز کے سجدے سے سجدہ تلاوت اد ا ہوجائے گا) اگرچہ اس کی نیت نہ کرے جیسا کہ عنقریب آئے گا اور یہ حکم اس صورت کے ساتھ بھی مقید ہے کہ اگر کسی نے جان بوجھ کر سجدہ ترک کیا یہاں تک کہ سلام پھیر لیا اور نماز سے فارغ ہو گیا، تو وہ سجدہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال اگر بھول کر سجدہ چھوڑ دیا اور بعد میں یاد آیا، اگرچہ سلام کے بعد نماز کے منافی کام سے پہلے تو وہ نماز ہی میں اس سجدے کو ادا کرے گا اور سجدہ سہو کرے گا، جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختارورد المحتار، جلد2، صفحہ705، دار المعرفۃ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-693
تاریخ اجراء: 21رمضان المبارک1446ھ/22مارچ 2025ء