
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اذان میں "اللہ اکبر اللہ اکبر" میں لفظ اکبر کی را کو لفظ اللہ کے لام سے ملا کر پڑھنے میں را پر زبر پڑھا جائے گا، پیش پڑھا جائے گا یا ساکن پڑھا جائے گا؟ کیونکہ عرب کے قاری حضرات را کو پیش دے کر پڑھتے ہیں اور فتاوی شامی میں ہے کہ را کو زبر کے ساتھ پڑھا جائے، پیش پڑھنا خلاف سنت ہے تو قاری حضرات کیوں پیش پڑھتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اذان و اقامت میں تکبیرات کو وصل یعنی پہلی تکبیر کو دوسری سے ملا کر پڑھنے کی صورت میں راجح یہی ہے کہ اکبر کی "راء" پر فتحہ پڑھا جائے گا، پیش پڑھنا مرجوح ہے۔
تفصیل اس مسئلہ میں یہ ہے کہ در اصل اذان و اقامت کے کلمات میں آخری حرف کو ساکن پڑھنا زمانہ اقدس سے مسلمانوں میں معمول ہے، لہذا اس کے خلاف مطلق حرکت دے کر پڑھنا سنتِ متوارثہ کے خلاف طریقہ کار ہے۔ چونکہ ملانے کی صورت میں ظاہر ہے کہ راء پر کوئی حرکت دینی ہوگی، اب وہ حرکت کیا ہوگی؟ تو اس کے بارے میں خاتم المحققین علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "را ء" پر سکون کی نیت کے ساتھ اس پر فتحہ یعنی زبر پڑھاجائے، پیش پڑھنا خلاف سنت ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح ضمہ ایک حرکت ہے، تو فتحہ بھی حرکت ہے۔ اگر سکون کے برخلاف حرکت کی وجہ سے ضمہ دینا خلافِ سنت ہے تو فتحہ بھی خلاف سنت ہونا چاہئے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فتحہ پڑھنے کی اجازت اور پیش کو خلاف سنت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ پہلی "اكبر" کی راء پر چونکہ وقف مطلوب ہے، لہذا وقف کے تقاضے کی وجہ سے "راء" فی نفسہٖ ساکن قرار پائی لیکن جب "راء" کو اسم جلالت "الله" سے ملایا گیا تو "راء" اور "لام" دونوں کے ساکن ہونے کی وجہ سے اجتماع ساکنین ہوگیا، لہذا اجتماع ساکنین سے بچنے کے لیے لفظ ِ"اَلله" کے ہمزہ کی فتحہ "راء" کو دیدی گئی، تو یوں گویا حقیقت میں "راء" ساکن ہی ہے مگر ظاہری اعتبار سے فتحہ کے ساتھ پڑھی گئی، جبکہ اگر "راء" کو پیش کے ساتھ پڑھا جائے تو وہ اصلاً متحرک قرار پائے گی، اس لیے علامہ شامی علیہ الرحمۃ نے " راء" پر پیش پڑھنے کو خلاف سنت فرمایا ہے۔ البتہ وصل یعنی ملاتے ہوئے اگر کوئی اکبر کی "راء " پر پیش پڑھ دے تو یہ ناجائز وگناہ ہرگز نہیں اورپیش دے کرپڑھنے میں بھی اذان و اقامت ہوجائے گی لیکن خلاف سنت ہوگا۔
اذان و اقامت کے کلمات کو ساکن پڑھنے سے متعلق مراقی الفلاح میں ہے:
”ويجزم الراء في التكبير ويسكن كلمات الأذان والإقامة حقیقۃ وینوی الوقف فی الاقامۃ لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: الاذان جزم والإقامة جزم والتكبير جزم“
ترجمہ: اور تکبیر میں "راء" کو جزم کے ساتھ پڑھا جائے، اور اذان و اقامت (میں سے ہر ایک )کے کلمات کو ساکن ادا کیا جائے گا، اذان میں حقیقتاً (سانس توڑ کر وقف کیا جائے گا )اور اقامت میں وقف کی نیت کرے گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے کہ اذان جزم (ساکن)ہے، اقامت جزم ہے اور تکبیر جزم ہے۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، کتاب الصلاة، صفحہ 118، مکتبة المدینه، کراچی)
خلیل ملت مفتی محمد خلیل خان برکاتی لکھتے ہیں: ”اذان و اقامت کے کلمات میں جزم یعنی آخر میں وقف، یعنی اسے ساکن بغیر کسی حرکت پڑھنا شرعاً مطلوب اور زمانہ اقدس سے مسلمانوں میں معمول ہے۔ اس کے خلاف کرنا، سنت متوارثہ کو چھوڑنا ہے۔ اسی لیے اللہ اکبر سکون سے پڑھتے ہیں، حرکت نہیں دیتے۔ “ (فتاوی خلیلیہ، جلد 1، صفحہ 218، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)
فتاوی جامعہ اشرفیہ میں ہے: ” اذان و اقامت کے تمام کلمات کے آخرِ حرف پر سکون اور وقف ہے۔ مگر اذان و اقامت میں فرق یہ ہے کہ اذان میں حقیقۃً یعنی سانس توڑ کر ٹھہر بھی جائے اور اقامت میں سکون و جزم پڑھے اور وقف کی نیت کرے۔ ۔ ۔ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "اذان و اقامت اور تکبیر میں جزم(سکون) ہے۔ ۔ ۔ سکون و جزم ترک کر کے اس کو متحرک و مضموم پڑھنا بلا شبہہ مذموم و رافعِ سنت ہے اور ارشاد نبوی کی مخالفت ہے۔ “ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد 1، صفحہ 264-265 ملتقطاً، مبارک پور، ہند)
درمختار میں ہے:
’’وبفتح راء اکبر والعوام یضمونھا، روضۃ۔ قال المصنف: لکن فی الطلبۃ معنی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: الاذان جزم۔ ای مقطوع المد، فلا یکون آللہ، لانہ استفھام، وانہ لحن شرعی أو مقطوع حرکۃ الاخر للوقف، فلا یقف بالرفع فانہ لحن لغوی‘‘
ترجمہ: اور "اكبر" کی راء کو فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے، اور عوام اسے ضمہ کے ساتھ پڑھتے ہیں (روضۃ)۔ مصنف نے کہا: لیکن طلبہ(ایک کتاب کا نام)میں نبی ﷺ کے قول ’’اذان ساکن ہے‘‘ کا معنی یہ ہے کہ اذان میں مد نہ دی جائے، لہٰذا "آلله" نہ کہا جائے کیونکہ یہ استفہام ہے اور شرعی لحاظ سے غلطی ہے، یا پھر اس کا معنیٰ یہ ہے کہ آخر کی حرکت کو وقف کی وجہ سے حذف کردیا جائے، لہذا رفع کے ساتھ وقف نہ کیا جائے کیونکہ یہ لغوی اعتبار سے غلطی ہے۔
اس کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار میں ہے:
’’(وبفتح راء اکبر)بتحویل فتحۃ الھمزۃ الیھا للتلخص من الساکن۔ ۔ ۔ ’’وقولہ: (حرکۃ الاخر)۔ ۔ ۔ غایۃ الامر ان راء اکبر الاولی والثالثۃ والخامسۃ محرکۃ بالفتح لالتقاء الساکنین، حیث لم یقف علیھا، وما بقی ساکن للوقف، حلبی‘‘
ترجمہ: (اور اکبرکی راء کو فتحہ کے ساتھ) ساکن سے چھٹکارا پانے کیلئے ہمزہ کے فتحہ کو اس کی طرف منتقل کردینے کی وجہ سے۔ ۔ ۔ (اور ان کا قول کہ آخری حرف کی حرکت کو وقف کی وجہ سے حذف کردیا جائے گا)۔ ۔ ۔ غایت یہ ہے کہ پہلی، تیسری اور پانچویں تکبیر میں جہاں وقف نہیں کیا ہو، تو وہاں ساکنین کے ملنے کی وجہ سے "اكبر" کی راء کوفتحہ کے ساتھ حرکت دی جائے گی، اور باقی سب وقف کی وجہ سے ساکن ہوں گے، حلبی۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار، جلد2، صفحہ58، 57، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے:
” وحاصلها أن السنة أن يسكن الراء من " الله أكبر " الأول أو يصلها بـ " الله أكبر " الثانية، فإن سكنها كفى وإن وصلها نوى السكون فحرك الراء بالفتحة، فإن ضمها خالف السنة؛ لأن طلب الوقف على " أكبر " الأول صيره كالساكن أصالة فحرك بالفتح“
ترجمہ: اس کا حاصل یہ کہ سنت یہ ہے کہ پہلے "اللہ اکبر" کی راء کو ساکن کیا جائے، یا اسے دوسرے "اللہ اکبر" کے ساتھ ملا دیا جائے۔ اگر مؤذن نے اسے ساکن کر دیا تو یہ کافی ہے، اور اگر اسے ملا دیا تو ساکن کی نیت کرتے ہوئے را ء کو فتحہ کے ساتھ حرکت دے گا، اگر اس نے اسے پیش دیا تو اس نے سنت کی خلاف ورزی کی؛ کیونکہ پہلے "اکبر" پر وقف کےتقاضے نے اسے ساکن ہونے کی طرح بنا دیا، لہذا اسے فتحہ کے ساتھ حرکت دی جائے گی۔ (رد المحتار علی الدر المختار، باب الاذان، جلد 2، صفحہ 6365-، دار المعرفۃ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-867
تاریخ اجراء: 3 ربيع الاول 1447ھ/28 اگست 2025ء