دعا کے دوران اذان شروع ہو جائے تو کیا کریں؟

دعا کے دوران، اذان شروع ہو جائے تو دعا جاری رکھیں یا اذان سنیں؟

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ہم محفل میں دعا مانگ رہی تھیں کہ اذان شروع ہوگئی، اب اذان کا جواب دیں یا دعا جاری رکھیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق جب اَذان اور اقامت ہو تو اتنی دیر کے ليے بندہ سلام، کلام، تمام اعمال روک دے، یہاں تک کہ اذان کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ دورانِ تلاوت اگر اذان شروع ہوجائے تو تلاوت روک کر اذان سنے اور اس کا جواب دے۔ لہذا دعاکے دوران اگراذان شروع ہوجائے تودعاروک کراذان سنیں اورجواب دیں۔

اذان و اقامت کے دوران کام کاج میں مشغول نہ ہونے کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے

و لا ينبغي أن يتكلم السامع في خلال الأذان والإقامة ولا يشتغل بقراءة القرآن ولا بشيء من الأعمال سوى الإجابة ، ولو كان في القراءة ينبغي أن يقطع ويشتغل بالاستماع و الإجابة۔ كذا في البدائع

یعنی: سامع اذان اور اقامت کے دوران بات چیت نہ کرے، نہ ہی قرآن کی تلاوت میں مشغول ہو، نہ ہی اذان کے جواب کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہو۔ اور اگر وہ تلاوت کررہا ہو تو چاہیے کہ وہ تلاوت روکے اور اذان سننے اور اس کے جواب دینے میں مشغول ہو، جیسا کہ بدائع میں مذکور ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 57، مطبوعہ: بیروت)

البحر الرائق میں ہے

في فتاوى قاضي خان إجابة المؤذن فضيلة وإن تركها لا يأثم، و أما قوله عليه الصلاة و السلام {من لم يجب الأذان فلا صلاة له} فمعناه الإجا بة بالقدم لا باللسان فقط۔۔۔ و لا يقرأ السامع و لا يسلم و لا يرد السلام و لا يشتغل بشيء سوى الإجابة ولو كان السامع يقرأ يقطع القراءة و يجيب و قال الحلواني الإجابة بالقدم لا باللسان حتى لو أجاب باللسان و لم يمش إلى المسجد لا يكون مجيباً

یعنی: فتاوی قاضی خان میں ہے کہ اذان کے جواب دینے میں فضیلت ہے اور اگر کوئی شخص اذان کا جواب (زبان سے) نہ دے،تو وہ گنہگار نہیں ہوگا۔ بہر حال سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ ”جو اذان کا جواب نہ دے تو اس کی کوئی نماز نہیں“ اس سے مراد اذان کا جواب قدم سے دینا ہے نہ کہ فقط زبان سے اذان کا جواب دینا۔ سامع اذان کے دوران تلاوت نہ کرے، نہ ہی کسی کو سلام کرے اور نہ ہی سلام کا جواب دے، نہ ہی اذان کے جواب کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہو۔ اور اگر سامع قرآن کی تلاوت کررہا ہو تو وہ تلاوت روکےاور اذان کا جواب دے۔ امام حلوانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اجابت بالقدم کا حکم ہے نہ کہ فقط اجابت باللسان کا، لہذا اگر کوئی شخص زبان سے اذان کا جواب دے اور چل کر مسجد کی طرف نہ جائے تو اس صورت میں وہ مجیب نہ ہوگا۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 273، مطبوعہ: کوئٹہ)

بہارِ شریعت میں ہے ”جب اَذان ہو، تو اتنی دیر کے ليے سلام کلام اور جواب سلام، تمام اشغال موقوف کر دے یہاں تک کہ قرآن مجید کی تلاوت میں اَذان کی آواز آئے، تو تلاوت موقوف کر دے اور اَذان کو غور سے سُنے اور جواب دے۔ یوہیں اِقامت میں۔ جو اَذان کے وقت باتوں میں مشغول رہے، اس پر معاذ اللہ خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ3، صفحہ 473، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4407

تاریخ اجراء: 14 جمادی الاولٰی 1447ھ / 06 نومبر 2025ء