
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز کے اوقات میں دی جانے والی اذان بیٹھ کر کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ جو اذان بیٹھ کر دی جائے، کیا اسے دوبارہ کہا جائے گایا نہیں ؟اس کے متعلق رہنمائی فرما دیں۔ سائل: عابد علی (فیصل آباد)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اذان دین اسلام کا عظیم شعار، نماز کے لیے بلانے کا سبب ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے زمانے سے اذان دینے کا ایک مخصوص طریقہ رائج ہے، کھڑے ہو کر اذان دینا بھی اسی معہود و معمول طریقے کا ایک حصہ ہے، لہذا بلا عذر بیٹھ کر اذان کہنا مکروہ اور سنت متوارثہ کی مخالفت ہے اور جو اذان بیٹھ کر دی جائے، اُسے کھڑے ہو کر دوبارہ کہنا مستحب ہے، البتہ عذر کی وجہ سے بیٹھ کر اذان دینا بلا کراہت جائز، بلکہ صحابی رسول کے عمل سے ثابت ہے۔
حضر ت بلال رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اذان دی، جیساکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں حدیث مبارک ہے:
”حدثنا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم : أن عبد اللہ بن زيد الأنصاري جاء إلى النبي صلی اللہ علیہ و سلم فقال: يا رسول اللہ رأيت في المنام كان رجلا قام وعليه بردان أخضران على جذمۃ حائط فأذن مثنى وأقام مثنى وقعد قعدة قال: فسمع ذلك بلال فقام فأذن مثنى وأقام مثنى وقعد قعدة“
ترجمہ: ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حدیث بیان کی کہ حضرت عبد اللہ بن زید انصاری نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، تو عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے خواب میں ایک آدمی کو گری ہوئی دیوار کے ٹیلے پر کھڑے دیکھا، جس پر دو سبز رنگ کی چادریں تھیں، پھر اس نے دو مرتبہ اذان دی، دو مرتبہ اقامت کہی اور پھر بیٹھ گیا، راوی کہتے ہیں جب حضرت بلال نے یہ سنا، تو کھڑے ہو گئے اور دو بار اذان کہی، دو بار اقامت کہی اور پھر بیٹھ گئے۔ (المصنف ابن ابی شیبہ، جلد1، صفحہ185، مطبوعہ دار التاج، بیروت)
بیٹھ کر اذان دینا طریقہ متوارثہ کے خلاف ہے، جیساکہ بدائع الصنائع میں ہے:
”أن يؤذن قائما إذا أذن للجماعة، ويكره قاعدا لأن النازل من السماء أذن قائما حيث وقف على جذم حائط وكذا الناس توارثوا ذلك فعلا فكان تاركه مسيئا لمخالفته النازل من السماء وإجماع الخلق‘‘
ترجمہ: مُؤذِّن جب جماعت کے لیے اذان دے تو کھڑا ہوکر دے، بیٹھ کر اذان کہنا، مکروہ ہے، کیونکہ آسمان سے اترنے والے فرشتے نے دیوار پر کھڑے ہو کر اذان دی تھی، یونہی لوگوں کا ہمیشہ سے یہی معمول رہا ہے، تو گویا اِسے چھوڑنے والے نے آسمان سے اترنے والے فرشتے اور مخلوق کے اجماع کی مخالفت کی وجہ سے برا كيا۔ (بدا ئع الصنائع، جلد1، صفحہ 648، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ)
بیٹھ کر اذان دینا مکروہ اور اس کا اعادہ مستحب ہے، جیساکہ نور الایضاح میں ہے:
” ويكره۔۔۔ أذان الجنب وصبي لا يعقل وقاعد۔۔۔ ويستحب إعادته“
ترجمہ: جنبی، ایسا بچہ جو سمجھ دار نہ ہو، اوربیٹھ کر اذان دینے والا، ان سب کی اذان مکروہ ہے اور ان کی اذان کا اعادہ مستحب ہے۔ (نور الایضاح مع مراقی الفلاح، صفحہ120-121، مطبوعہ مكتبة المدینہ، کراچی)
عذر کی وجہ سے بیٹھ کر اذان دینامکروہ نہیں، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں حدیث ہے:
”عن عطاء: أنه كره أن يؤذن وهو قاعد إلا من عذر“
ترجمہ: حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیٹھ کر اذان دینا مکروہ ہے مگر یہ کہ عذر ہو۔
صحابی رسول نے بھی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر اذان دی، جیساکہ اسی کتاب کی دوسری حدیث میں ہے:
”عن الحسن ابن المحمد العبدي قال: رأيت أبا زيد صاحب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وكانت رجله أصيبت في سبيل اللہ يؤذن وهو قاعد“
ترجمہ : حضرت حسن بن محمد عبدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو زید رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ ایسے مرد تھے جن کو اللہ کی راہ میں مصیبت پہنچی، تو وہ بیٹھ کر اذان دے رہے تھے۔ ( المصنف ابن ابی شیبہ، جلد1، صفحہ 194-195 مطبوعہ دار التاج، بیروت)
البنایہ شرح ہدایہ میں ہے:
”القيام سنة أذان الجماعة ويكره تركه من غير عذر ر“
ترجمہ: جماعت کی اذان کے لیے کھڑے ہونا سنت ہے اور اس کو عذر کے بغیر ترک کرنا مکروہ ہے۔ (البناية شرح الهداية، جلد2، صفحہ96، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)
عذر کی وجہ سے بیٹھ کر اذان دینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، جیسا کہ موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:
”اتفق الفقهاء على أنه يكره أن يؤذن المؤذن جالسا إلا لعذر، أو إذا كان يؤذن لنفسه كما يقول الحنفية والمالكية، لأمره صلى اللہ عليه وسلم بلالا بالقيام بقوله: قم فناد بالصلاة۔۔۔وأما صاحب العذر فلا بأس أن يؤذن جالسا قال الحسن بن محمد العبدي: رأيت أبا زيد صاحب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وكانت رجله أصيبت في سبيل اللہ يؤذن قاعدا“
ترجمہ: اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ بیٹھ کر اذان دینا مکروہ ہے مگر یہ کہ کوئی عذر ہویا کوئی شخص اپنے کسی مقصد کے لیے بیٹھ کر اذان دے(تو مکروہ نہیں)، جیساکہ احناف اور مالکیہ کہتے ہیں، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نےاپنے اس فرمان ” قم فناد بالصلاة“ (کھڑے ہو اور اذان پڑھو) کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو کھڑے ہو کر اذان دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔۔۔بہرحال جس کو کوئی عذر ہو اس کے لیے بیٹھ کر اذان دینے میں کوئی حرج نہیں، حضرت حسن بن محمد عبدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو زید رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ ایسے مرد تھے جن کو اللہ کی راہ میں مصیبت پہنچی، تو وہ بیٹھ کر اذان دے رہے تھے۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية، جلد15، صفحہ264، مطبوعہ دارالسلاسل، الكويت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : FSD-9450
تاریخ اجراء : 20صفر المظفر 1446 ھ /15 اگست 2025ء