بیماری میں اشارے سے قضا نمازیں پڑھنا کیسا؟

حالتِ صحت میں قضا ہونے والی نمازیں حالتِ بیماری میں اشارے سے پڑھ سکتے ہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ زید حالتِ صحت میں باقاعدہ قیام، رکوع و سجود کے ساتھ نمازیں ادا کرتا تھا، لیکن اب ایکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے بیڈریسٹ پر ہے،جس وجہ سے قیام، رکوع وسجود پر قادر نہیں، اشارے سے نماز پڑھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو حالتِ صحت میں نمازیں قضا ہوئیں تھیں، کیا وہ اب بیٹھ کر اشارے سے قضا نمازیں ادا کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر حالتِ صحت کے ایام والی قضا نمازیں حالتِ عذر میں بیٹھ کر ادا کر لیں، تو کیا صحت یاب ہونے پر ان کا اعادہ کرنا ہو گا یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

صورت مسئولہ کے مطابق زید بیٹھ کر اشارے سے قضا نمازیں ادا کر سکتا ہے اور صحت یاب ہونے پر ان نمازوں کا اعادہ کرنا ضروری نہیں۔

اس مسئلہ کی تفصیل یوں ہے کہ نماز کی قضا ادا کرنے کے متعلق اصول یہ ہے کہ جس حالت میں نمازقضا ہوئی، اسی اعتبار سے قضا کی جاتی ہے، مگر یہ کہ قضا کے وقت کوئی عذر لاحق ہو جائے (جیسے بیماری یا بڑھاپا جس سے قیام ممکن نہ ہو)، تو نماز اپنی موجودہ حالت کے مطابق ادا کی جائے گی، نہ کہ اُس حالت کے مطابق جس وقت نماز فوت ہوئی تھی۔ فقہائے کرام نے واضح کیا ہے کہ اگر کوئی شخص قیام کے ساتھ نماز پڑھنے کے قابل تھا اور اس نے نماز قضا کی، پھر بعد میں وہ مریض یا معذور ہو گیا اور اب قیام و سجدہ پر قادر نہیں رہا، تو وہ شخص ان قضا نمازوں کو موجودہ معذوری کے مطابق بیٹھ کر یا اشارے سے پڑھ سکتا ہے، ایسی حالت میں ان نمازوں کو دوبارہ صحت یابی کے بعد اعادہ کرنے (دوبارہ پڑھنے)کی بھی ضرورت نہیں۔

قضانماز پڑھنے کے طریقے کے متعلق:

علامہ شُرُنبلالی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1069ھ / 1658ء) لکھتے ہیں:

لأن القضاء بحسب الأداء بخلاف فائتة المريض و القوي فإن المريض إذا برأ يقضي بالركوع و السجود وإذا مرض يقضي بالإيماء فائتة الصحة لسقوط الركوع و السجود بالعذر ولزومهما بالقدرة

ترجمہ: کیونکہ (نماز کی) قضا دینا (اس کے) ادا کرنے کے طریقے کے مطابق ہوتا ہے، برخلاف مریض اور طاقتور کی فوت شدہ نماز کے۔ پھر اگر مریض صحت یاب ہو جائے، تو وہ رکوع اور سجدے کے ساتھ قضا دے گا اور اگر صحت مند آدمی بیمار ہو جائے، تو وہ اسے اشارے سے ادا کرے گا، کیونکہ عذر کی وجہ سے رکوع اور سجدہ ساقط ہو جاتے ہیں اورقدرت کی حالت میں لازم ہوتے ہیں۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، صفحہ 164، مطبوعہ المکتبۃ العصریۃ)

قضا نماز کو موجودہ حالت و کیفیت اور وسعت کے مطابق ادا کرنے کے متعلق رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

فیلزمہ قضاءھا علی قدر وسعہ اما اذا کان لم یکن عذر فانہ یلزمہ قضاء الفائتۃ علی الصفۃ التی فاتت علیھا و لذا یقضی المسافر فائتۃ الحضر الرباعیۃ اربعا و یقضی المقیم فائتۃ السفر رکعتین لان القضاء یحکی الاداء الا لضرورۃ

 ترجمہ: لہٰذا اس پر لازم ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق ان نمازوں کی قضا دے، لیکن اگر اس (قضا کے)وقت کوئی عذر نہ ہو (یعنی وہ صحت مند ہو)، تو اس پر لازم ہے کہ ان فوت شدہ نمازوں کی قضا اسی طریقے پر دے جس طریقے پر وہ فوت ہوئی تھیں۔ اسی وجہ سے مسافر حالتِ حضر میں فوت شدہ چار رکعت نماز کی قضا چار رکعتوں سے کرتا ہے اور مقیم اگر حالتِ سفر میں نماز قضا کرے، تو وہ دو رکعتیں پڑھ کر قضا کرتا ہے، کیونکہ قضا نماز، اصل ادا شدہ نماز کے مطابق ہوتی ہے ، مگر یہ کہ کوئی شرعی ضرورت درپیش ہو۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 650، مطبوعہ کوئٹہ)

حالتِ عذرمیں جو قضا نمازیں پڑھ لیں، ان کا اعادہ ضروری نہیں:

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

صلی فی مرضہ بالتیمم و الایماء ما فاتہ فی صحتہ صح ولا یعید لو صح

ترجمہ: جس نے حالتِ مرض میں تیمم اور اشارے سے وہ نمازیں ادا کیں جو حالت صحت میں فوت ہوئیں، تو (وہ نمازیں) درست ہیں اور اگر یہ تندرست ہو بھی گیا، تو بھی اعادہ نہیں کرے گا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 650، مطبوعہ کوئٹہ)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ”جو نماز جیسی فوت ہوئی اس کی قضاء ویسی ہی پڑھی جائے گی، مثلاً سفر میں نماز قضا ہوئی، تو چار رکعت والی دو ہی پڑھی جائے گی، اگرچہ اقامت کی حالت میں پڑھے اور حالت اقامت میں فوت ہوئی، تو چار رکعت والی کی قضا چار رکعت ہے، اگر چہ سفر میں پڑھے، البتہ قضا پڑھنے کے وقت کوئی عذر ہے، تو اس کا اعتبار کیا جائے گا، مثلاً جس وقت فوت ہوئی تھی اس وقت کھڑا ہو کر پڑھ سکتا تھا اور اب قیام نہیں کر سکتا، تو بیٹھ کر پڑھے یا اس وقت اشارہ ہی سے پڑھ سکتا ہے، تو اشارے سے پڑھے اور صحت کے بعد اس کا اعادہ نہیں۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 703، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9548

تاریخ اجراء: 17 ربیع الثانی 1445 ھ/ 11 اکتوبر2025ء