دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی نے دوران سفر گاڑی میں ظہر کی نماز سیٹ پر بیٹھ کر ہی پڑھ لی ہو اور گاڑی بھی چل رہی ہو، تو کیا اس صورت میں نماز ہوجائے گی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
فرض ،واجب اور سنت فجر میں سے کوئی نماز بھی چلتی گاڑی (بس،کار وغیرہ )میں سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ادا نہیں ہوسکتیں، کیونکہ ان نمازوں میں اتحادِ مکان (ایک جگہ ہونا) شرط ہے اور یہ بھی شرط ہے کہ یہ نمازیں زمین پر یا زمین پر ٹھہری ہوئی چیز پر جو حرکت نہ کر رہی ہو،اس پر پڑھی جائیں۔ یونہی جہت قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا بھی شرط ہے۔ پھر ان نمازوں میں قیام فرض ہے اور زمین پر یا ایسی چیز پر جو زمین پر ٹھہری ہوئی ہو، باقاعدہ سجدہ کرنا فرض ہے۔ جبکہ چلتی ہوئی گاڑی میں اول تا آخر ایک جگہ پر ہونا اور زمین یا زمین پر ٹھہری ہوئی چیز پر نماز کی ادائیگی کسی طرح ممکن نہیں ہوگی، یونہی مستقل قبلہ رُو ہونا بھی آسان نہیں، اسی طرح سیٹ پر بیٹھے بیٹھے نماز پڑھنے کی صورت میں فرض قیام اور زمین یا اس پر ٹھہری ہوئی چیز پر سجدہ بھی نہیں ہوگا، لہذا اگر کسی نے ظہر کی فرض نماز چلتی گاڑی میں سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی پڑھ لی تو ادا نہ ہوئی،فرض ذمہ پر باقی رہا۔ البتہ اگر وقت ختم ہورہا تھا اور ڈرائیور گاڑی کو نہ روک رہا ہو اور اس صورت میں یہ نماز اس حالت میں پڑھ لی، تو تمام شرائط کے ساتھ اس کا اعادہ اب بھی لازم ہوگا۔
واضح رہے کہ یہ حکم فرض، واجب اور سنت فجر کی نمازوں سے متعلق ہے۔ باقی نفل نمازیں تو یہ بیرون شہر جہاں سے شرعی مسافر پر قصر واجب ہوتا ہے، سواری پر پڑھنے کی گنجائش ہے، کیونکہ اس میں مکان کا اول تا آخر ایک ہونا، استقرار علی الارض، جہتِ قبلہ شرط نہیں، بلکہ جدھر سواری کا رخ ہو، اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ یونہی نوافل میں قیام بھی فرض نہیں، لہذا اگر نفل نماز چلتی گاڑی میں سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اشارے سے ادا کرلی تو یہ درست ہوجائے گی، اس کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا۔
تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:
(أماالصلوٰۃ علی العجلۃ ان کان طرف العجلۃ علی الدابۃ وھی تسیرأ و لا) تسیر( فھی صلاۃ علی الدابۃ فتجوز فی حالۃ العذر) المذکور فی التیمم (لا فی غیرھا وان لم یکن طرف العجلۃ علی الدابۃ جاز) لو واقفۃ لتعلیلھم بانھا کالسریر (ھذا) کلہ (فی الفرض) و الواجب بانواعہ و سنۃ الفجر بشرط ایقافھاللقبلۃ ان أمکنہ و الا فبقدر الامکان لئلا یختلف بسیرھا المکان (و أما فی النفل فتجورعلی المحمل و العجلۃ مطلقا)
ترجمہ: رہا معاملہ بیل گاڑی ( جس کو جانور کھینچتے ہیں) پر نماز کا تو اگر گاڑی کا ایک حصہ چوپائے کے اوپر ہے خواہ وہ چلتی ہے یا نہیں تو یہ چوپائے پر نماز سمجھی جائے گی تو تیمم میں بیان کردہ عذر کی صورت میں نماز ادا ہوجائے گی، اس کے علاوہ میں نہیں۔ اور اگر گاڑی کا کوئی حصہ چوپائے پر نہیں اور بیل گاڑی کھڑی ہو تو نماز ہوجائے گی کیونکہ فقہائے کرام نے اسے تخت کی مثل قرار دیا ہے۔ یہ تمام گفتگو فرائض، واجبات کی تمام انواع اور فجر کی سنتوں میں ہے بشرطیکہ قبلہ رُخ کھڑی کی ہو ، اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو بقدر الامکان قبلہ رُخ کھڑا کرنا شرط ہے تاکہ اس کے چلنے سے مکان میں تبدیلی نہ ہو جائے۔ باقی نوافل کجاوے اور بیل گاڑی میں پڑھنا مطلقاً جائز ہیں۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 2، صفحہ 591- 595، دار المعرفۃ، بیروت)
ردالمحتار علی الدرالمختار میں ہے:
الحاصل ان کلامن اتحاد المکان واستقبال القبلۃ شرط فی صلاۃ غیر النافلۃ عند الامکان لا یقسط الا بعذر
ترجمہ: حاصل یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو نوافل کے علاوہ نماز میں اتحادِ مکان اور استقبالِ قبلہ دونوں شرط ہیں تو یہ عذر کے بغیر ساقط نہ ہوگی۔ (ردالمحتار علی الدرمختار، جلد 2، صفحہ594، دار المعرفۃ، بیروت)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’فرض اور واجب جیسے وتر و نذراور ملحق بہ یعنی سنّتِ فجر چلتی ریل میں نہیں ہوسکتے اگر ریل نہ ٹھہرے اور وقت نکلتا دیکھے ، پڑھ لے پھر بعد استقرار اعادہ کرے۔ تحقیق یہ ہے کہ استقرار بالکلیہ ولو بالوسائط زمین یا تابع زمین پر کہ زمین سے متصل با تصال قرار ہو، ان نمازوں میں شرطِ صحت ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 136، 137، رضا فا ؤنڈیشن، لاھور)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’ٹھہری ہُوئی ریل میں سب نمازیں جائز ہیں اور چلتی ہوئی میں سنّتِ صبح کے سوا سب سنّت ونفل جائز ہیں مگر فرض ووتر یا صبح کی سنتیں نہیں ہوسکتیں، اہتمام کرے کہ ٹھہری میں پڑھے اور دیکھے کہ وقت جاتا ہے پڑھ لے اور جب ٹھہرے پھر پھیرے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 5، صفحہ 113، رضا فا ؤنڈیشن، لاھور)
فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’چلتی ہوئی ٹرین میں نفل نماز پڑھنا جائز ہے مگر فرض، واجب اور سنّتِ فجر پڑھنا جائز نہیں۔ اس لیے کہ نماز کے لیے شروع سے آخر تک اتحادِ مکان اور جہتِ قبلہ شرط ہے، اور چلتی ہوئی ٹرین میں شروع نماز سے آخر تک قبلہ رخ رہنا اگرچہ بعض صورتوں میں ممکن ہے، لیکن اختتامِ نماز تک اتحادِ مکان یعنی ایک جگہ رہنا کسی طرح ممکن نہیں، اس لئے چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھنا صحیح نہیں۔ ہاں اگر نماز کے اوقات میں نماز پڑھنے کی مقدار ٹرین کا ٹھہرنا ممکن نہ ہو، تو چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھ لے، پھر موقع ملنے پر اعادہ کرے۔“ (فتاوی فیض الرسول، جلد 1، صفحہ 237، اکبر بک سیلرز، لاھور)
بہار شریعت میں ہے: ’’چلتی ریل گاڑی پر بھی فرض و واجب وسنّتِ فجر نہیں ہوسکتی، اور اس کو جہاز اور کشتی کے حکم میں تصور کرنا غلطی ہے کہ کشتی اگر ٹھہرائی بھی جائے جب بھی زمین پر نہ ٹھہرے گی اور ریل گاڑی ایسی نہیں اور کشتی پر بھی اسی وقت نماز جائز ہے جب وہ بیچ دریا میں ہو، کنارہ پر ہو اور خشکی پر آسکتی ہو تو اس پر بھی جائز نہیں ہے، لہٰذا جب اسٹیشن پر گاڑی ٹھہرے اُس وقت یہ نمازیں پڑھے اوراگر دیکھے کہ وقت جاتا ہے تو جس طرح بھی ممکن ہو پڑھ لے پھر جب موقع ملے اعادہ کرے کہ جہاں مِن جہۃ العباد (یعنی بندوں کی طرف سے) کوئی شرط یا رکن مفقود ہو (یعنی نہ پایا گیا ہو) اُس کا یہی حکم ہے‘‘۔ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 673، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہار شریعت میں ہی ہے: ’’بيرون شہر (مراد وہ جگہ ہے جہاں سے مسافر پر قصر واجب ہوتا ہے) سواری پر بھی نفل پڑھ سکتا ہے اور اس صورت میں استقبالِ قبلہ شرط نہیں بلکہ سواری جس رُخ کو جا رہی ہو اِدھر ہی مونھ ہو اور اگر اُدھر مونھ نہ ہو تو نماز جائز نہیں اور شروع کرتے وقت بھی قبلہ کی طرف مونھ ہونا شرط نہیں بلکہ سواری جدھر جارہی ہے اُس طرف ہو اور رکوع و سجود اشارہ سے کرے اور سجدہ کا اشارہ بہ نسبت رکوع کے پست ہو‘‘۔ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 671، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-910
تاریخ اجراء: 04 ربیع الاخر1447ھ/29 ستمبر 2025ء