
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ شہر اور اڈے سے 17 کلومیٹر دور بستی ہے، جس میں تقریبا ً 18 گھر ہیں، مسجد کی لمبائی، چوڑائی 40 × 40 فٹ ہے اور 100 سے زائد افراد اس میں نماز ادا کرسکتے ہیں، اس علاقے میں یہ صرف ایک ہی مسجد ہے اور تقریباً دو کلو میٹر سے زیادہ دور مسلک اہلسنت و جماعت حنفی بریلوی کی جامع مسجد ہے، جہاں جمعہ ہوتا ہے، تو عرضِ خدمت یہ ہے کہ اس بستی کے اکثر مسلمان جمعہ نہیں پڑھ پاتے، ایسے میں اگر اسی بستی کی مسجد میں جمعہ شروع کر دیا جائے، تو تقریباً 30 سے زائد جمعہ کے اہل افراد کو جمعہ کی ادائیگی کا موقع مل سکتا ہے، بستی کی مسجد میں پانچوں نمازوں کی جماعت اور عید کی نماز ہو رہی ہے، باقاعدہ امام بھی موجود ہے، حفظ کا درجہ بھی موجود ہے، برائے کرم رہنمائی فرما دیجیے کیا اس مسجد میں جمعہ کا آغاز کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جمعہ فرائضِ دینیہ میں سے ایک اہم ترین فرض ہے۔ کسی بھی جگہ پر جمعہ صحیح ہونے کے لیے مخصوص شرائط ہیں، اگر وہ شرائط پائی جائیں، تو جمعہ درست ہو گا، ورنہ نہیں اور بعض صورتوں میں گناہ بھی ہو گا، ان شرائط میں سے ایک شرط اس جگہ کا شرعی اعتبار سے شہر ہونا بھی ہے اور ایسی آبادی جس میں اتنے مسلمان مرد، عاقل، بالغ، ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے، آباد ہوں اور وہ سب گاؤں کی سب سے بڑی مسجد میں نماز پڑھیں، تو اس میں پورے نہ آسکیں، بلکہ مسجد کی توسیع کرنی پڑے یا دوسری جامع مسجد تعمیر کرنی پڑے، تو جمعہ دُرست ہونے کے حق میں ایسی آبادی بھی شہر سمجھی جائے گی، فی زمانہ مستند و معتمد مفتیان کرام نے اسی پر فتوی دیا ہے، لہٰذا جو دیہات یا گاؤں ایسے ہوں، اُن میں جمعہ ادا کرنا دُرست ہے اور نمازِ جمعہ اداکرنے سے ظہرساقط ہوجائے گی اور جو گاؤں بیان کردہ تفصیل کے مطابق بھی نہ ہوں، تواُن میں نمازِ جمعہ شروع کرنا، ناجائزوگناہ ہے اور وہاں کے بالغ افرادپرظہرفرض ہوگی۔
یہاں بطورِ خاص یہ دو باتیں ذہن نشین رکھناضروری ہے: (1) مسجد کے بھرنے اور جگہ کم پڑنے میں آبادی کا ہر فرد، بچہ، بوڑھا، جوان، بیمار، تندرست مراد نہیں ہے، بلکہ صرف وہی لوگ مراد ہیں جن پر جمعہ فرض ہوسکتا ہو یعنی مسلمان مرد، عاقل، بالغ، مقیم، تندرست افراد (تندرست سے مرادیہ ہے کہ اندھے، لنگڑے، شدید بیمار وغیرہ نہ ہوں، معمولی سا بیمار مراد نہیں)۔(2) اور مسجد سے مراد صرف مسجد کےاندر کا حصہ نہیں ہے، بلکہ بشمول صحن پوری مسجد مراد ہے، لہٰذا صرف اندر کے حصے کا بھر جانا کافی نہیں ہو گا۔
اصلِ مسئلہ سمجھنے کے بعد اب سوال کا متعین جواب یہ ہے کہ سوال میں بیان کی گئی تفصیل کے مطابق اُس گاؤں کی آبادی کے تمام اہل لوگ شامل ہونے کے باوجود اس قدر کثرت میں نہیں ہوتے کہ مسجد کی جگہ کم پڑ جاتی ہو، بلکہ پھر بھی بہت سی جگہ بچ جاتی ہے، لہٰذا جب ایسی صورت ہے، تو شرعا ً وہ آبادی اس بیان کردہ تعریف کے لحاظ سے شہر شمار نہیں ہوگی اور ایسی جگہ پر جمعہ شروع کرنا، ناجائز و ممنوع ہے اور وہاں کے بالغ افراد کو ظہر ادا کرنے کا حکم ہے۔
یادرہے! ذکر کردہ حکم اُس صورت میں ہے جب نیا جمعہ شروع کرنا ہو، تاہم اگر کوئی ایسی جگہ ہو کہ جہاں ایک زمانہ سے جمعہ جاری ہو ، تو ایسی صورتِ حال میں فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ عوام الناس کو بنام جمعہ دو رکعت پڑھنے سے نہ روکا جائے کہ پہلے ہی لوگ دین سے دُوری کے باعث نماز و عبادات سے دور ہوتے جار ہے ہیں، لہٰذا جس قدر اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام لیتے ہیں،غنیمت ہے،بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اس آیت(اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْهٰى - عَبْدًا اِذَا صَلّٰى یعنی کیا تُو نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے۔ بندے کو جب وہ نماز پڑھے۔)کی وعید سے خوف کرتے ہوئے،اُنہیں جمعہ پڑھنے سے نہ روکا جائے، البتہ لوگوں کومسئلۂ شرعیہ سے ضرور آگاہ کیا جائے کہ اس طرح کے دیہات میں جمعہ ادا نہیں ہوتا اور ظہر ادا کرنا بھی لازم و ضروری ہے،ورنہ نماز ِظہر چھوڑنے کا گناہ ذمہ پر ہوگا۔
نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے شہر ہونا ضروری ہونے کے بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ، السنن الکبریٰ للبیہقی اور دیگر کتبِ احادیث میں ہے:
واللفظ للاول:’’لا جمعة ولا تشريق ولا صلاة فطر ولا اضحى الا في مصر جامع او مدينة عظيمة‘‘
ترجمہ:نمازِ جمعہ، تکبیراتِ تشریق، عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز صرف مصرِجامع یا بہت بڑے شہر میں ہی جائز ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 1، صفحہ 439، مطبوعہ مکتبۃ الرشد، الریاض)
اور جمعہ کی ادائیگی دُرست ہونے کے لیے شہر کی مراد کے متعلق ہدایہ اور اس کی شُروح ”عنایہ،بنایہ “اور دیگر کتبِ فقہ میں ہے،
واللفظ للعنایۃ :”وعنہ أی أبی یوسف (أنھم اذااجتمعوا) أی اجتمع من تجب علیہ الجمعة لاکل من یسکن فی ذلک الموضع من الصبیان والنساء والعبید لأن من تجب علیھم مجتمعون فیہ عادة۔قال ابن شجاع :أحسن ماقیل فیہ اذاکان أھلھابحیث لواجتمعوافی أکبرمساجد ھم لم یسعھم ذلک حتی احتاجواالی بناء مسجد آخر للجمعة وهذا الاحتياج غالب عند اجتماع من عليه الجمعة “
ترجمہ:یعنی امام ابویوسف رَحِمَہُ اللہ سے روایت ہے کہ ایسے لوگ جن پر جمعہ لازم ہے،نہ کہ وہ تمام لوگ جو وہاں رہائش پذیر ہیں، مثلا:بچے، خواتین اور غلام،کیونکہ جن پر جمعہ فرض ہے عادۃً وہی لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں۔ابن شجاع نے کہا کہ اس بارے میں سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جب جمعہ کے اہل لوگ وہاں کی سب سے بڑی مسجد میں جمع ہوں،تو سب اس میں نہ سما سکیں حتی کہ وہ جمعہ کے لیے ایک اَور مسجد بنانے پر مجبور ہوں (تو ایسی آبادی شرعاًشہر کے حکم میں ہو گی) اور یہ حاجت غالباًانہی لوگوں کے جمع ہونے کی صورت میں درپیش ہو گی کہ جن پر جمعہ فرض ہوتا ہو۔ (العنایہ شرح الھدایہ،کتاب الصلاۃ، جلد2، صفحہ 52، مطبوعہ لبنان )
فی زمانہ شہر کی تعریف میں یہی قول معتبر ہے اور اِسی پر فتوی ہے، چنانچہ مختلف کتبِ فقہ کے حوالے سے خلاصۃً کلام کرتے ہوئےاعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:
” فمختار اکثر الفقھاء مراعۃ لضرورۃ زماننا والمفتی بہ عند جمھور المتاخرین فی تعریف المصر الروایۃ المختارۃ للبخی ای مالا یسع اکبر مساجدہ اھلہ المکلفون بھا، وقال ابوشجاع ھذا احسن ماقیل فیہ وفی الولوالجیہ وھو صحیح، بحر وعلیہ مشی فی الوقایۃ ومتن المختار وشرحہ وقدمہ فی متن الدرر علی قول الاٰخر وظاھرہ ترجیحہ وایدہ صدر الشریعۃ بقولہ لظھور التوانی فی احکام الشرع لاسیما فی اقامۃ الحدود فی الامصار، وکل موضع يصدق علیہ التعریف المذکور فھو مصر تجب الجمعۃ علی اھلہ والافلا تجب وکل موضع يصدق علیہ التعریف المذکور فھو مصر تجب الجمعۃ علی اھلہ والافلا تجب سواء ذلک الموضع یتعارف بلفظ القریۃ اودونھا غیر المصر “
یعنی ہمارے زمانے کی ضرورت کے پیش نظر تعریفِ شہر میں اکثر فقہاء کا مختار اور متاخرین کا مفتی بہ قول وہی روایت ہے جو امام بلخی کی مختار ہے، یعنی وہ مقام شہر ہے جس کی سب سے بڑی مسجد وہاں کے مکلف لوگوں کی گنجائش نہ رکھتی ہو، شیخ ابوشجاع کہتے ہیں کہ ان تعریفات میں یہ حسن ہے،والو الجیہ میں ہے کہ یہی صحیح ہے، بحر، وقایہ ، متنِ مختار اور اس کی شرح میں اسی کو اختیار کیا گیا ہےاور متن دُرَرْ میں اسے ہی دوسرے قول پر مقدم کیا اور ظاہراً ترجیح اسی کو ہے، صدر الشریعہ نے اپنے اس قول سے اس کی تائید کی ہے "کیونکہ احکامِ شرع خصوصا اقامتِ حدود میں سستی و کاہلی واقع ہو چکی ہے" اور ہر وہ جگہ جس پر یہ تعریف صادق آرہی ہو، وہ شہر ہے اور وہاں کے رہنے والوں پر جمعہ لازم ہوگا اور اگر یہ تعریف صادق نہ آئے ، تووہاں جمعہ نہیں ہوگا، خواہ وہ قریہ کے نام سے متعارف ہو یا کسی اَور نام سے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد8،صفحہ432، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مسجد سے بشمول صحنِ مسجد، پوری مسجد مراد ہے، صرف اندر کا حصہ بھر جانا کافی نہیں، چنانچہ امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”بعض علماء نے جویہ روایت اختیار کی ہے اُس میں بستی کی مردم شماری مقصود نہیں بلکہ خاص وہ لوگ جن پر جمعہ فرض ہے یعنی مرد عاقل بالغ آزاد مقیم کہ اندھے لنجھے لُولے یا ایسے ضعیف یا مریض نہ ہوں کہ جمعہ کی حاضری سے معذور ہوں، ایسے معذوروں یا بچوں، عورتوں، غلاموں، مسافروں کی گنتی نہیں اورپوری مسجد مع صحن مراد ہے، نہ کہ فقط اندر کا درجہ۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد8،صفحہ299 ، 300،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
اور ایسی جگہ جہاں جمعہ پڑھنا جائز نہیں،وہاں ظہر کی نماز لازم ہونے کے بارے میں علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:
”لو صلوا فی القری لزمھم أداء الظھر“
ترجمہ: اگر لوگ (ایسے)گاؤں میں (جہاں جمعہ جائزنہیں) جمعہ ادا کریں، تو ان پر ظہر کی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ (رد المحتار مع الدر المختار ،جلد3،صفحہ8، مطبوعہ کوئٹہ)
اور جہاں روایتِ نادرہ کے مطابق بھی جمعہ جائز نہ ہو ،وہاں اگر جمعہ شروع کیاجا چکا ہو،تو اب عوام الناس کو بنام جمعہ دو رکعت پڑھنے سے منع نہ کیا جائے ،مگرظہر ذمہ پر باقی رہنے کا اصلِ مسئلہ بھی بتایا جائے،چنانچہ امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہوا کہ”ایک دیہات ہے جس کی آبادی تقریباً پانچ سو کے ہے اور اس میں ایک ایسی مسجد ہے کہ اگر اس گاؤں کے مکلفین اس میں جمع ہوں ،تو مسجد پُر نہ ہوگی اور اس کے قریب دودو کوس پر کئی قصبے ہیں،تو اس گاؤں میں ازروئے مذہب حنفی نمازِ جمعہ وعیدین جائز ہے یا نہیں؟“،تو اس کے جواب میں فرمایا:” باجماع جملہ ائمہ حنفیہ اس میں جمعہ وعیدین باطل ہیں اور پڑھنا گناہ۔۔۔خود نہ پڑھیں گے،حکم پوچھا جائے گا،تو فتوٰی یہ دیں گے جہاں نہیں ہوتے، قائم نہ کریں گے،بایں ہمہ اگر عوام پڑھتے ہوں،منع نہ کریں گے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد8،صفحہ439، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
یونہی فتاوی فقیہ ملت مفتی میں جلال الدین امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہوا کہ:”کوریا کالری“میں ساٹھ ستر گھر مسلمان ہیں۔ سب چھوٹے بڑے مرد عورتوں کی تعداد چار پانچ سو تک ہے، تو یہاں جمعہ کی نماز ہو گی یا نہیں؟“اس سوال کے جواب میں آپ عَلَیْہِ الرَحْمَۃ نے فرمایا :”کوریا کالری“میں اگر اتنے مسلمان آباد ہوں کہ وہاں کی بڑی مسجد میں سما نہ سکیں، تو روایتِ نادرہ کی بنیاد پر وہاں جمعہ کی نماز پڑھنے سے ہو جائے گی اور اس روز کی ظہر کی نماز ذمہ سے ساقط ہو جائے گی اور اگر یہ صورت نہ ہو، تو وہاں بنام جمعہ نماز نفل ہوگی ، عوام اگر اسے پڑھیں، تو انہیں منع نہ کیا جائے کہ وہ جس طرح بھی اللہ و رسول کا نام لیں، غنیمت ہے۔اور جب بنام جمعہ دو رکعت نماز نفل ہو گی، تو اس کے پڑھنے سے ظہر کی نماز ذمہ سے ساقط نہ ہو گی۔اس کاپڑھنا فرض اور جماعت کے ساتھ واجب۔الگ الگ پڑھنا گناہ۔“(ملخصاًاز فتاوی فقیہ ملت، جلد1، صفحہ 234،233، مطبوعہ شبیر برادرز)
عوام الناس کو منع اگرچہ نہیں کریں گے، مگر اصل مسئلہ سے آگاہ ضرور کیا جائے گا، چنانچہ مفتی جلال الدین امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1422ھ/2001ء) لکھتے ہیں:” واضح ہو کہ دیہات میں اگرچہ جمعہ جائز نہیں، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں، تو (اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْهٰى - عَبْدًا اِذَا صَلّٰى) سے خوف کرتے ہوئے انہیں روکا نہ جائے، لیکن مسئلہ شرعیہ سے ضرور آگاہ کیا جائے کہ دیہات میں جمعہ ادا نہیں ہوتا، ظہر پڑھنا ضروری ہے۔“(فتاوی فیض رسول، جلد1، صفحہ402، مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Fsd-9303
تاریخ اجراء: 25 رمضان المبارک1446ھ/24 مارچ 2025ء