ڈیوٹی کے سبب سنت نماز چھوڑ سکتے ہیں؟

کیا ڈیوٹی کی وجہ سے سنتیں چھوڑ سکتے ہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک غیر مسلم کے پاس سیلز مینی کی جاب کرتا ہوں، جاب کے دوران اگر نماز کا وقت ہوجائے، تو کیا میں صرف فرض نماز جیسے ظہر و عصر کی صرف چار رکعت فرض، مغرب کی صرف تین رکعت ادا کرسکتا ہوں، یا مجھے اس کے ساتھ سنت بھی پڑھنا ہوگی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ملاز مت چاہے مسلمان کے پاس ہویا غیر مسلم کے پاس،بہر صورت ملازم شخص کو دورانِ ڈیوٹی صرف فرض نماز پر اِکتفا کرنا درست نہیں،اُسے فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ،سنتِ مؤکدہ بھی ادا کرنی ہوں گی، کیونکہ سنتِ مؤکدہ نمازوں کو پڑھنے کی شرعاً تاکید ہے، سنتِ مؤکدہ نمازوں کو بلاعذرِ شرعی صرف ایک آدھ بار ترک کرنا اِساءت یعنی بُرا ہے اور ایسا شخص قابلِ ملامت ہے، اور جو اُس کے ترک کی عادت بنالے ،تو ایسا شخص گنہگار ہے،لہذا ڈیوٹی کے دروان بھی سنتِ مؤکدہ نمازیں چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوگی ،بلکہ ملازم کیلئے دورانِ ڈیوٹی فرض نماز اور سنتِ مؤکدہ نمازوں کو پڑھنے کی شرعاً رُخصت ہے کہ وہ ا پنی ملازمت کے وقت میں اس کو ادا کرسکتا ہے، ہاں البتہ سنتِ غیرمؤکدہ اور نفل نمازوں کا یہ حکم نہیں، بلکہ اُن کو ڈیوٹی کے وقت میں پڑھنا شرعاً جائز نہیں، اگر کوئی پڑھے گا تو شرعاً اُتنے وقت کی تنخواہ کا بھی مستحق نہیں ہوگا، اُسے اُتنے وقت کی کٹوتی کروانا ہوگی۔

سنت مؤکدہ نمازوں کے ترک کا حکم بیان کرتے ہوئے، سيدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’شبانہ روز میں بارہ رکعتیں سنتِ مؤکدہ ہیں،دو صبح (فجر کے فرض) سے پہلے، اور چار ظہر سے پہلے اور دو بعد، اور دو مغرب و عشاء کے بعد، جو ان میں سے کسی کو ایک آدھ بار ترک کرے مستحق ملامت و عتاب ہے۔ اور ان میں سے کسی کے ترک کا عادی گنہگار و فاسق و مستوجب عذاب ہے۔‘‘ ( فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 509، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں لکھتے ہیں: ”سنتیں بعض مؤکدہ ہیں کہ شریعت میں اس پر تاکید آئی ، بلاعذر ایک بار بھی ترک کرے ، تو مستحقِ ملامت ہے اورترک کی عادت کرے ، تو فاسق، مردود الشہادۃ، مستحقِ نار ہے اور بعض ائمہ نے فرمایا کہ ”وہ گمراہ ٹھہرایا جائے گا اور گنہگار ہے اگرچہ اس کا گناہ واجب کے ترک سے کم ہے۔“ تلویح میں ہے کہ اس کا ترک قریب حرام کے ہے، اس کا تارک مستحق ہے کہ معاذ اللہ! شفاعت سے محروم ہو جائے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا: ” جو میری سنت کو ترک کرے گا، اسے میری شفاعت نہ ملے گی۔“ (بهار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 662، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

ملازم کو دورانِ اجارہ، فرض نماز اور سنت مؤکدہ نمازیں پڑھنے کی رخصت ہے، چنانچہ رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے:

قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: و قد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. و اتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى

 ترجمہ: تتارخانیہ میں فرمایا: فتاوی فضلی میں ہے کہ جب کسی آدمی کو ایک دن کیلئے اجرت پر رکھا کہ وہ فلاں کام کرے تو اس اجیر پر لازم ہے کہ اس پورے وقت میں وہ کام کرے اور اس کام کے علاوہ کسی دوسری چیز میں مشغول نہ ہو، سوائے فرض نماز کے،اور فتاوی سمرقند میں ہے کہ بعض مشائخ نے فرمایا کہ اس کیلئے سنت (مؤکدہ )کو ادا کرنے کی بھی اجازت ہے ،اور فقہائے کرام نے اتفاق کیا ہے کہ وہ نفل ادا نہیں کرے گا،اور اسی پر فتوی ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 9، صفحہ 181، دار المعرفۃ، بیروت)

بہارِ شریعت میں ہے: ”اجیر خاص اُس مدتِ مقرر میں اپنا ذاتی کام بھی نہیں کرسکتا اور اوقاتِ نماز میں فرض اور سنت مؤکدہ پڑھ سکتا ہے ، نفل نماز پڑھنا اس کے لیے اوقات اجارہ میں جائز نہیں۔“ (بھارِ شریعت، حصہ 14، جلد 3، صفحہ 161، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اجیرِ کے دوران اجارہ نفل نماز میں مشغول ہونے کی صورت میں اتنے وقت کی اجرت کی کٹوتی ہوگی، چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ”اجیر خاص پر وقت مقررہ معہود میں تسلیم نفس لازم ہے اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتاہے ، ہاں اگر تسلیمِ نفس میں کمی کرے، مثلا: (کام پر) حاضر تو آیا ، لیکن وقت مقرر خدمت مفوضہ کے سوا اور کسی اپنے ذاتی کام اگر چہ نماز نفل یادوسرے شخص کے کاموں میں صرف کیا کہ اس سے بھی تسلیم منتقض ہوگئی، بہر حال جس قدر تسلیمِ نفس میں کمی کی ہے ، اتنی تنخواہ وضع ہوگی‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 19، صفحہ 506، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-513

تاریخ اجراء: 13 صفر المظفر 1446ھ / 19 اگست 2024ء