
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، ہر دوسرا بندا سوشل میڈیا پر آکر اپنی من مانی کے مسائل بیان کررہا ہوتا ہے، حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر یہ بات بیان کر کے احناف پر کافی اعتراضات کیے جا رہے ہیں کہ حنفی لوگ کہتے ہیں کہ رفع یدین منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل نہیں کر سکتے، حالانکہ یہ لوگ عیدین میں تکبیرات کے ساتھ رفع یدین کرتے ہیں، اگر رفع یدین منسوخ ہو چکا ہے، تو پھر سب نمازوں میں اس کو ترک کر دیں، ورنہ دیگر نمازوں میں بھی رفع یدین کریں۔ کیا عیدین میں رفع یدین کرنے کا الگ سے حکم دیا دیا گیا ہے؟ اس حوالے سے تسلی بخش رہنمائی کردیں؟ سائل: عبد الغنی ( فیصل آباد )
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
احناف کے نزدیک وتر و عیدین کے علاوہ دیگر نمازوں میں صرف تکبیرِ تحریمہ کے لیے رفع یدین (ہاتھوں کو اٹھانا ) سنت ہے، رکوع سے پہلے یا بعد سنت نہیں، کیونکہ نبی پاک عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے ابتداءً پنج وقتہ نمازوں کے درمیان رفع یدین فرمایا، پھر ترک فرما دیا اور اس سے منع بھی فرما دیا، یہی خلفائے راشدین، دیگر عشرہ مبشرہ اور کثیر فقہا صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا عمل تھا، اسی لیے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ نمازِ پنج وقتہ کے درمیان (مثلاً رکوع سے پہلے اور بعد اور دیگر تکبیراتِ انتقالات کے وقت) رفع یدین منسوخ ہو چکا اور اب اس پر عمل کرنا خلافِ سنت ہے۔
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عیدین (عیدالفطر و عید الاضحیٰ) کی زائد تکبیرات کے وقت رفع یدین کیوں کیا جاتا ہے، تو اس کا جواب جاننے کے لیے چند باتیں سمجھ لیجیے!
(1)نماز کی ادائیگی کے طریقہ کے لحاظ سے نمازیں چار طرح کی ہیں: (1) پنج وقتہ نمازیں۔ (2 ) وتر، جو نمازِ عشا کے بعد ادا کیے جاتے ہیں اور نبی پاک عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کا معمول شریف تہجد کے وقت ادا کرنے کا تھا۔ (3) نمازِ جنازہ، جو کسی مسلمان کے فوت ہونے پر ادا کی جاتی ہے۔ (4) نمازِ عید، جوسال میں دو دفعہ ادا کی جاتی ہے۔ ان سب نمازوں کو ادا کرنے کا طریقہ شریعتِ مطہرہ میں الگ الگ بتایا گیا ہے، کسی ایک نماز کے طریقہ کو دوسری نماز پر قیاس نہیں کر سکتے کہ نمازِ فجر کو نمازِ عید کے مطابق ادا کیا جائے یا ظہر کو نمازِ جنازہ کے مطابق ادا کیاجائے، ایسا نہیں ہو سکتا۔
(2)نمازوں کی مذکورہ بالا تقسیم کے لحاظ سے رفع یدین یعنی ہاتھ اٹھانے کی تین قسمیں ہیں:
(1) نماز کے شروع میں، یعنی تکبیرِ تحریمہ کے وقت، یہ بالاتفاق ہر نماز میں سنت ہے۔
(2) نماز کے درمیان میں، مثلاً رکوع میں جانے سے پہلے، اٹھنے کے بعد، سجدے میں جاتے یا اٹھتے وقت، تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے بعد، وغیرہ۔ احناف کے نزدیک ان سب مقامات پر رفع یدین ہر نماز کے اعتبار سے منسوخ ہے۔
(3) مخصوص نماز میں مخصوص مقام پر رفع یدین، جیسے نمازِ وتر میں تکبیرِ قنوت کے وقت ا ور عیدین میں چھ زائد تکبیرات کے وقت، یہ بھی تمام فقہائے کرام کے نزدیک سنت ہیں۔
(3) احناف مطلقاً رفع یدین کے منسوخ ہونے کے قائل نہیں، بلکہ صرف پنج وقتہ نمازوں کے درمیان نسخ کے قائل ہیں، یعنی جن مقامات پر نبی پاک عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے رفع یدین ترک فرما دیا اور صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو بھی منع کر دیا، وہاں ہم نے بھی رفع یدین کرنا چھوڑ دیا اور جہاں منع نہیں فرمایا، وہاں ہم بھی کرتے ہیں اور نبی پاک عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے پنج وقتہ نمازوں کے درمیان رفع یدین سے منع فرمایا ہے، عیدین کی زائد تکبیرات میں کرنے سے منع نہیں فرمایا، اس لیے ہم عیدین کی زائد تکبیرات میں رفع یدین کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمہیدی گفتگو سے معلوم ہوا کہ احناف کا عمل ہر جگہ عین تعلیماتِ نبویہ کے مطابق ہے کہ جس مقام پر نبی پاک عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام رفع یدین فرماتے رہے، ترک نہیں فرمایا، ہم بھی وہاں رفع یدین کرتے ہیں کہ وہاں رفع یدین کرنا اب بھی سنت ہے اور جہاں رسول اللہ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے رفع یدین ترک فرما دیا، ہم نے بھی وہاں چھوڑ دیا کہ وہاں اب سنت نہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ "اگر عام نمازوں میں رفع یدین نہیں کرتے، تو عیدین میں بھی نہ کیا کرو يا ہر جگہ رفع یدین کرو "ہرگز درست نہیں، كيونكہ یہ سنّت اور احادیثِ طیبہ کے خلاف اپنی عقل کو ترجیح دینا ہے، جو شرعاً ممنوع ہے۔
تکبیراتِ انتقال کے وقت رفع یدین نہیں کیا جائے گا، اَحناف کا یہ عمل کثیر احادیث سے مؤید و ثابت ہے، یہاں فقط ایک حدیث پاک ذکر کی جاتی ہے، چنانچہ جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، مصنفِ ابنِ ابی شیبہ، مسندِ احمداورسننِ کبری میں حضرت علقمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے طریق سے نقل کیاہے:
’’قال عبداللہ ابن مسعود الااصلی بکم صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلی فلم یرفع یدیہ الافی اول مرۃ‘‘
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کی نمازکی طرح نماز نہ پڑھاؤں، پھر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے نماز پڑھائی اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ کہیں ہاتھ نہ اٹھائے۔ (جامع الترمذی، ابواب الصلاۃ، باب رفع الیدین عند الرکوع، جلد1، صفحہ59، کراچی)
مذکورہ حدیث کو روایت کرنے کے بعد حضرت امام ابو عیسیٰ ترمذی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃلکھتے ہیں:
’’حدیث ابن مسعود حدیث حسن وبہ یقول غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وھو قول سفیان واھل الکوفۃ‘‘
ترجمہ: عبداللہ ابن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیث، حدیثِ حسن ہے، صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان وتابعین میں سے متعدد علماء کا یہی مذہب تھا اور یہی امام سفیان ثوری اور علمائے کوفہ کا بھی قول ہے۔ (جامع الترمذی، ابواب الصلاۃ، باب رفع الیدین عند الرکوع، جلد1، صفحہ59، کراچی)
عشرہ مبشرہ سمیت کثیر صحابہ کرام اور فقہا تابعین و تبع تابعین رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ اسی کے قائل تھے کہ تکبیراتِ انتقال کے وقت رفع یدین نہیں کیا جائے گا، جیساکہ علامہ بدر الدین عینی حنفی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں:
’’وروی عن ابن عباس انہ قال: ان العشرۃ الذین شھد لھم رسول اللہ بالجنۃ ما کانوا یرفعون ایدیھم الا لافتتاح الصلاۃ۔ قلت فعلی ھذا مذھب ابی حنیفۃ مذھب جماعۃ من الصحابۃ والتابعین ومن بعدھم؛ اما من الصحابۃ: فابوبکر الصدیق، وعمر، و عثمان، و علی، و طلحۃ بن عبیداللہ، والزبیر بن العوام، وسعد بن ابی وقاص، و سعید بن زید، و عبد الرحمٰن بن عوف، و أبوعبیدہ عامر ابن عبد اللہ بن الجراح، فھٰؤلاء العشرۃ، و عبد اللہ بن مسعود، و جابر ابن سمرۃ، و البراء بن عازب، و عبد اللہ بن عباس، و عبد اللہ بن عمر، و ابوسعید الخدری، ومن التابعین و من بعدھم: مذھب ابراھیم النخعی، و ابن ابی لیلیٰ، و علقمۃ، والأسود، والشعبی، و ابی إسحاق، و خیثمۃ، و قیس، والثوری، و مالک، وابن القاسم، و المغیرۃ، و وکیع، و عاصم بن کلیب، وجماعۃ آخرین‘‘
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ وہ دس صحابہ جنہیں رسول اللہ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے جنت کی بشارت دی سوائے تکبیر تحریمہ کے ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے۔ میں کہتا ہوں یہی مذہب امام ابو حنیفہ کا ہے، جماعت صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کا مذہب ہے۔ صحابہ میں سے حضرت ابوبکر صدیق، عمر، عثمان، علی، طلحۃ بن عبیداللہ، الزبیر بن العوام، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، عبد الرحمٰن بن عوف، ابو عبیدہ عامر ابن عبد اللہ بن الجراح، یہ دس عشرہ مبشرہ ہوئے، اور عبد اللہ بن مسعود، جابر ابن سمرۃ، البراء بن عازب، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، ابوسعید الخدری، جبکہ تابعین اور ان کے بعد والوں میں سے ابراھیم النخعی، ابن ابی لیلیٰ، علقمہ، اسود، شعبی، ابو اسحاق، خیثمہ، قیس، سفیان ثوری، امام مالک، ابن القاسم، مغیرۃ، وکیع، عاصم بن کلیب، ودیگر جماعت (رِضْوَانُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْن) کا مذہب ہے۔ (شرح سنن ابی داود، باب رفع الدین، جلد 3، صفحہ 303، مطبوعہ ملتان)
امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”رکوع وغیرہ میں رفع یدین ہمارے ائمہ کرام رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْکے نزدیک منسوخ ہوچکا ہے اور منسوخ پر عمل نا مشروع۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 6، صفحہ 409، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن )
عیدین کی زائد تکبیرات میں رفع یدین کا حکم ہے، چنانچہ مصنف عبدالرزاق میں ہے:
”عن ابن جريج، قال: قلت لعطاءيرفع الامام يديه كلما کبر ھذا التكبير الزيادة في صلاةالفطر؟ قال: نعم، ويرفع الناس أيضا“
حضرت ابن جریج عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عطا ء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے عرض کی عید الفطر میں جب امام تکبیرات زوائد کہے گا، تو کیا ہاتھ کو بھی اٹھائے گا، تو فرمایا: ہاں اور مقتدی بھی ہاتھ اٹھائیں گے۔ (مصنف عبدالرزاق، جلد 4، صفحہ27، مطبوعہ دار التاصیل)
شرح معانی الآثار کی حدیثِ پاک ہے:
”عن أبي يوسف رضي اللہ عنه، عن أبي حنيفة رضي اللہ عنه، عن طلحة بن مصرف، عن إبراهيم النخعي قال: ترفع الأيدي في سبع مواطن: في افتتاح الصلاة، وفي التكبير للقنوت في الوتر، وفي العيدين، وعند استلام الحجر، وعلى الصفا والمروة، وبجمع وعرفات، وعند المقامين عند الجمرتين“
یعنی: امام ابو یوسف، امامِ اعظم ابو حنیفہ سے روایت کرتے ہیں اور امامِ اعظم، حضرت طلحہ بن مصرف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہم سے اور وہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نخعی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سات جگہوں میں ہاتھ اٹھائے جائیں گے، نماز کے شروع میں، تکبیرِ قنوت میں، عیدین کی تکبیرات میں، حجرِ اسود کے استلام کے وقت، صفا و مروہ کے وقت، عرفات میں اور دونوں جمرات کے پاس کھڑے ہو کر۔ (شرح معانی الآثار، جلد 2، صفحہ 178، مطبوعہ بیروت )
تکبیراتِ عیدین کے وقت ہاتھ اٹھانے پر فقہائے کرام کا اتفاق ہے، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:
”وأجمعوا على أنه يرفع الأيدي في تكبير القنوت وتكبيرات العيدين“
ترجمہ: فقہائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ تکبیرِ قنوت اور تکبیراتِ عیدین کے وقت رفع یدین کیا جائے گا۔ ( بدائع الصنائع، كتاب الصلاة، فصل في صلاة العيدين، جلد 1، صفحہ 207، مطبوعہ بیروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”تکبیرات عیدین میں کانوں تک ہاتھ لے جانے کے بعد تکبیر کہے اور ان کے علاوہ کسی جگہ نماز میں ہاتھ اٹھانا سنت نہیں۔“(بھارِ شریعت، حصہ 3، صفحہ 521، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD- 9431
تاریخ اجراء: 03 صفر المظفر 1447 ھ / 27 جولائی 2025 ء