عید کی زائد تکبیریں کہاں سے ثابت ہیں؟

عید کی زائد تکبیریں کتنی ہیں اور کہاں سے ثابت ہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ احناف کے نزدیک عیدین کی زائد تکبیرات کتنی ہیں؟ اور کن روایات وآثار سے ثابت ہیں؟

سائل: محمد سعید عطاری (گجرات)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

احناف کے نزدیک عیدین کی چھ زائد تکبیرات ہیں، کہ پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قراءت کے بعد تین تین تکبیرات کہی جائیں گی ،جوکثیر احادیث و آثار سے ثابت ہیں، یہی اکثر صحابہ کا مذہب ہے۔

یاد رہے! یہاں چھ زائد تکبیرات کے ثبوت پردو طرح کی روایات ذکر کی جائیں گی ،بعض روایات میں نو تکبیرات اور بعض روایات میں آٹھ تکبیرات کا ذکر ہے، ان روایات میں تکبیرات کی تعداد میں فرق، طریقہ شمار کے اختلاف کی بنیاد پر ہے، جو کہ زائد تکبیرات کے عدد پر اثر انداز نہیں ہوتااور وہ یوں کہ جن روایات میں نو تکبیرات کا ذکر ہے ان میں چھ زائد تکبیرات کے ساتھ تکبیر تحریمہ اور دونوں رکعتوں کی تکبیراتِ رکوع کو بھی شمار کیا گیا ہے ،یوں پہلی رکعت میں پانچ اور دوسری رکعت میں چار تکبیرات ہونگی اور جن روایات میں آٹھ تکبیرات کا ذکر ہے ان میں چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پہلی رکعت کی تکبیر تحریمہ اور دوسری کی تکبیر رکوع کو شمار کیا گیا ہے،یوں پہلی اور دوسری رکعت میں چار،چار تکبیرات ہونگی۔

وہ روایات جن میں نو تکبیرات کا ذکر ہے، ان میں چھ زائد تکبیرات کے ساتھ تکبیر تحریمہ اور دونوں رکعتوں کی تکبیراتِ رکوع کو بھی شمار کیا گیا ہے۔ چنانچہ المصنف عبد الرزاق اور المصنف ابن ابی شیبہ اور المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

أرسل الوليد إلى عبد اللہ بن مسعود، وحذيفة، وأبي مسعود، وأبي موسى الأشعري بعد العتمة فقال: إن هذا عيد المسلمين فكيف الصلاة؟ فقالوا: سل أبا عبد الرحمن فسأله فقال: «يقوم فيكبر أربعا، ثم يقرأ بفاتحة الكتاب، و سورة من المفصل، ثم يكبر، ويركع فتلك خمس، ثم يقوم فيقرأ بفاتحة الكتاب، و سورة من المفصل، ثم يكبر أربعا يركع في آخرهن فتلك تسع في العيدين»، فما أنكره واحد منهم

ترجمہ: حضرت ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت حذیفہ اور حضرت ابو مسعود اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم کوعشاء کے بعد پیغام بھیجا اور کہا یہ مسلمانوں کی عید کا دن ہیں تو نماز کیسے پڑھی جائے گی؟سب نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیجئے، حضرت ولید رضی اللہ عنہ نے نمازِ عید کے بارے میں سوال کیا تو حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عید کی نماز پڑھنے والا کھڑا ہوکر چار تکبیریں کہے گا( تکبیر تحریمہ اور مزید تین زائد تکبیریں) پھر وہ سورۃ الفاتحہ اور مفصل سورتوں میں سے کوئی ایک سورت پڑھے گا پھر تکبیر رکوع کہتا ہوا رکوع کرے گا یہ پانچ تکبیریں ہوئی،پھر وہ (دوسری رکعت کے لئے )کھڑا ہوگا اور وہ سورۃ الفاتحہ اور مفصل سورتوں میں سے کوئی ایک سورت پڑھے گا پھر وہ چار تکبیریں کہے، ان چار میں سے آخری کے ساتھ رکوع کرے، عیدین میں یہ نو تکبیریں ہیں۔ اس پر جتنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے ان میں سے کسی ایک نے بھی اس کا ا نکار نہیں کیا۔(المعجم الكبير للطبراني، حدیث 9514، ج9، ص 302،دار النشر: القاهرة)

مذکورہ حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام نور الدين علی بن ابو بكر بن سليمان ھيثمی (المتوفی 807ھ) مجمع الزوائد میں فرماتے ہیں:

رواه الطبراني في الكبير و رجاله ثقات

ترجمہ:امام طبرانی نے اس حدیث کو المعجم الکبیر میں روایت کیا اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔(مجمع الزوائد، باب التكبير في العيد و القراءة فيه، حدیث3239، ج2، ص205، الناشر: مكتبة القدسي، القاهرة)

اسی متن کوالآثار میں امام محمد بن الحسن الشيبانی (المتوفی 189ھ) دوسری سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:

عن إبراهيم، عن عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ أنه كان قاعدا في مسجد الكوفة و معه حذيفة بن اليمان وأبو موسى الأشعري رضي اللہ عنهم فخرج عليهم الوليد بن عقبة بن أبي معيط و هو أمير الكوفة يومئذ - فقال: إن غدا عيدكم فكيف أصنع؟ فقالا: أخبره يا أبا عبد الرحمن كيف يصنع؟ فأمره عبد اللہ بن مسعود أن يصلي بغير أذان و لا إقامة و أن يكبر في الأولى خمسا و في الثانية أربعا

ترجمہ: حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے مرو ی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کوفہ کی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے ،حضرت ولید بن عقبہ بن ابو معیط رضی اللہ عنہ ان کی طرف آئے اور وہ اس دن کوفہ کے امیر تھے، عرض کی کہ کل تمہاری عید ہے میں نماز کیسے پڑھوں؟ حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم دونوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن اسے بتائیے کیسے نماز پڑھنی ہے؟ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ بغیر اذان واقامت کے نماز شروع کرو اور پہلی رکعت میں پانچ تکبیریں کہو (تکبیر تحریمہ اور مزید تین زائد تکبیریں اور پانچویں تکبیر رکوع میں جانے کی) اور دوسری میں چار تکبیریں کہو (تین زائد تکبیریں اور پانچویں تکبیر رکوع میں جانے کی)۔(الآثار لمحمد بن الحسن، باب صلاة العيدين، حدیث 201، ص1، ج536، دار النشر: لجنة إحياء المعارف النعمانية)

عیدین کی نو تکبیرات کب کہی جائیں گی، اس کی تفصیل مصنف ابن ابی شیبہ میں یوں ہے:

فقال: يكبر تسعا تكبيرة يفتتح بها الصلاة، ثم يكبر ثلاثا، ثم يقرأ سورة، ثم يكبر، ثم يركع، ثم يقوم فيقرأ سورة، ثم يكبر أربعا، يركع بإحداهن

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نےفرمایاعید کی نماز پڑھنے والا نو تکبیریں کہے گا ،ان میں سے ایک تکبیر کے ساتھ نماز شروع کرےگا پھر تین(زائد) تکبیریں کہے گا پھر اس کے بعد قراءت کرے گا،پھر تکبیر کہے گا پھر رکوع کرے گا اور پھر (دوسری رکعت کے لئے )کھڑا ہوجائے گاپھر قراءت کرے گا پھر وہ چار تکبیریں کہے ،ان چار میں سے آخری کے ساتھ رکوع کرے۔ (مصنف ابن أبي شيبہ،حدیث5699، ج1، ص494، الناشر: دار التاج، لبنان)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت،حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہے، چنانچہ علامہ ابن ہمام علیہ الرحمہ مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد فتح القدیر میں لکھتے ہیں:

و قد روي عن غير واحد من الصحابة نحو هذا۔ و هذا أثر صحيح قاله بحضرة جماعة من الصحابة. ومثل هذا يحمل على الرفع

ترجمہ:کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اسی کی مثل روایات مروی ہیں، یہ اثر صحیح ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کی موجودگی میں فرمایا، اس جیسی روایت کو، مرفوع پر محمول کیا جاتا ہے۔(فتح القدیر، باب صلوۃ العیدین، ج 2، ص76، الناشر: مصر)

وہ روایات جن میں آٹھ تکبیرات کا ذکر ہے، ان میں چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پہلی رکعت کی تکبیر تحریمہ اور دوسری کی تکبیر رکوع کو شمار کیا گیا ہے، چنانچہ شرح معانی الآثار اور مصابيح السنۃاور مشكاة المصابيح اور المعجم الکبیر للطبرانی اور سنن ابو داود میں ہے:

أن سعيد بن العاص سأل أبا موسى الأشعري وحذيفة بن اليمان، كيف كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يكبر في الأضحى والفطر؟ فقال أبو موسى : كان يكبر أربعا تكبيره على الجنائز، فقال حذيفة: صدق

ترجمہ:حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نےحضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں تکبیریں کیسے کہتے تھے؟ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عیدین میں چار تکبیریں کہتے تھے جیسے نماز جنازہ میں تکبیریں کہی جاتی ہیں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ سچے ہیں۔(سنن ابو داود، باب التكبير في العيدين، حدیث 1153، ج 1، ص 447، الناشر: المطبعة الأنصارية بدهلي، الهند)

مذکورہ حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام نور الدين علی بن ابو بكر بن سليمان ھيثمی (المتوفی 807 ھ) مجمع الزوائد میں فرماتے ہیں:

رواه الطبراني في الكبير و رجاله ثقات

ترجمہ:امام طبرانی نے اس حدیث کو المعجم الکبیر میں روایت کیا اور اس کےراوی ثقہ ہیں۔(مجمع الزوائد،باب التكبير في العيد و القراءة فيه، حدیث 3241، ج 2، ص 205، الناشر: مكتبة القدسي، القاهرة)

اس حدیث کے تحت مرقاة المفاتيح میں ہے:

(فقال أبو موسى: كان يكبر) : أي: في كل ركعة. (أربعا) أي: متوالية، و المعنى مع تكبير الإحرام في الركعة الأولى، و مع تكبير الركوع في الثانية

ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت میں چار تکبیریں پے درپے کہتے تھے۔روایت کا مطلب یہ ہے کہ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ اور دوسری رکعت میں تکبیرِ رکوع کے ساتھ (تین، تین زائد تکبیریں کہتے تھے)۔(مرقاة المفاتيح، باب صلاة العيدين، ج 3، ص 1071، الناشر: دار الفكر، بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

عندنا يكبر في صلاة العيدين تسع تكبيرات: ستة من الزوائد وثلاثة أصليات: تكبيرة الافتتاح، و تكبيرتا الركوع ۔۔۔ فيقرأ في الركعة الأولى بعد التكبيرات وفي الثانية قبل التكبيرات۔۔۔ والمسألة مختلفة بين الصحابة، روي عن عمر وعبد الله بن مسعود وأبي مسعود الأنصاري وأبي موسى الأشعري و حذيفة بن اليمان رضي الله عنهم أنهم قالوا مثل قول أصحابنا۔۔۔ والمختار في المذهب عندنا مذهب ابن مسعود لاجتماع الصحابة عليه

ترجمہ:ہمارے نزدیک عیدین کی نماز میں نو تکبیرات کہے گاجن میں سےچھ زائد ہیں اور تین اصلی،(تین اصلی تکبیرات یہ ہیں )تکبیر تحریمہ، اور رکوع کی دو تکبیریں۔۔۔ پہلی رکعت میں تکبیرات کے بعد قراءت کرے گا اور دوسری میں تکبیرات سے پہلے قراءت کرے گا۔۔۔یہ مسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان مختلف فیہ ہے ،حضرت عمر فاروق اور عبد اللہ بن مسعود اور حضرت ابو مسعود انصاری اور حضرت ابوموسی اشعری اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہم ،ان سب حضرات کا قول ہمارے اصحاب کے قول کی مثل ہے ۔ ۔ ۔ ہمارے مذہب احناف میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا مذہب مختار ہے ،کیونکہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔(بدائع الصنائع،کتاب الصلوۃ،فصل فی بیان قدر صلاۃ العید، ج2، ص243، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ملتقطا)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

(و اما کیفیۃ صلاۃ العید):ما قالہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ یکبر فی العیدین تسع تکبیرات خمسا فی الاولی واربعا فی الثانیۃ۔۔۔ هو قول أكثر الصحابة رضي اللہ تعالى عنهم وبه أخذ أصحابنا رحمهم اللہ تعالی

ترجمہ: عید کی نماز کا طریقہ وہی جس کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا،عیدین میں نو تکبیریں کہی جائیں گی،پانچ ،پہلی رکعت میں اور چار ،دوسری رکعت میں۔۔۔ یہی اکثر صحابہ کا مذہب ہے اسی کو ہمارے ائمہ احناف نے اختیار کیا ہے۔(فتاوی قاضی خان ،باب صلوۃ العیدین الخ،ج1،ص163، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

فتاوی بحر العلوم میں ہے :"آپ(امام اعظم علیہ الرحمہ)چھ زائد تکبیروں کے قائل ہیں۔ آپ کی مؤید مندرجہ ذیل مرفوع حدیثیں ہیں۔۔۔

سعيد بن العاص سأل أبا موسى الأشعري وحذيفة بن اليمان، كيف كان رسول الله صلى اللہ عليه وسلم يكبر في الأضحى والفطر؟ فقال أبو موسى : كان يكبر أربعا تكبيره على الجنائز، فقال حذيفة : صدق۔۔۔

ان حدیثوں سے چھ تکبیروں پر استدلال اس طرح ہے کہ پہلی اور دوسری روایت میں دونوں رکعتوں میں جتنی تکبیریں ایک ساتھ کہی جاتی تھیں اصلی ہوں کہ زائد انہیں کا ذکر کیااور بقیہ کو چھوڑ دیا۔۔۔ابن حجر ایک جلیل القدر شافعی عالم ہیں، رحمہ اللہ تعالی علیہ تو فریقین کے نزدیک اربعا مثل الجنازۃ کا مطلب یہی ہے کہ زائد تکبیریں تین ہی ہیں۔۔ امام اعظم علیہ الرحمہ کے مذہب کی مؤیدحدیثوں کے بیان میں امام ابو داؤد علیہ الرحمہ کے حوالہ سے حضرت ابو موسی اشعری اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنھما کی مرفوع حدیث ہم نقل کر آئے ہیں کہ حاکمِ کوفہ حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان دونوں بزرگ صحابہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نماز عید کا طریقہ دریافت کیا تو ان دونوں بزرگوں نے اطلاع دی کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام چار تکبیر ادا فرماتے تھے ۔تقریبا اس مضمون کی ایک دوسری حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے موقوفا مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی محفل میں حضرت ابو موسی اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہما حاضر تھے کہ حضرت سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے ان حضرات صحابہ سے نماز عید کا طریقہ پوچھا مؤخر الذکر بزرگوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ پر ڈالا تو انہوں نے نماز عید کا طریقہ بتایا کہ پہلی رکعت میں چار تکبیریں کہہ کر قرات شروع کرو پھر ایک تکبیر کہہ کر رکوع میں جاؤ دوسری رکعت میں پہلے قرات کرو پھر چار تکبیریں کہہ کر رکوع میں جاؤ۔ مذکورہ بالا دونوں حدیثوں میں کچھ باتیں مشترک ہیں اور کچھ کم و زائد مثلا پہلی روایت مرفوع ہے اور دوسری موقوف پہلی روایت میں ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود بھی موجود تھے اسی طرح پہلے روایت میں دونوں رکعتوں میں چار چار تکبیروں کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں پہلی رکعت میں پہلے چار پھر رکوع کے لیے کل پانچ اور دوسری رکعت میں رکوع سمیت چار تکبیریں۔ (فتاوی بحر العلوم، کتاب الصلوۃ، جلد1، صفحہ579 تا 582، ضیاء اکیڈمی، کراچی، ملتقطا)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: GUJ-0016

تاریخ اجراء: 16 صفر المظفر1447ھ / 11 اگست2025ء