فجر اور عصر کے بعد قضا نماز پڑھنا جائز ہے؟

فجر اور عصر کے بعد قضا نماز پڑھ سکتے ہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا عصر اور فجر کی نماز کے بعد قضا نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

تین اوقاتِ مکروہہ (یعنی طلوع آفتاب سے بیس منٹ تک ،غروب آفتاب سے بیس منٹ پہلے تک اور ضحوہ کبری جسے عوام زوال کہتی ہے) کے علاوہ کسی بھی وقت میں قضا نماز پڑھی جاسکتی ہے، لہذانمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے پہلے، یا طلوع آفتاب سے بیس منٹ بعد گزرجانے کے بعد قضا نماز پڑھ سکتے ہیں۔ یونہی نمازِ عصر کے بعد سے سورج غروب ہونے سے بیس منٹ پہلے تک کے وقت میں قضانمازیں پڑھنا بھی شرعاً جائز ہے۔ البتہ نماز فجر و نماز عصر کے بعد علی الاعلان لوگوں کے سامنے ہرگز قضا نمازیں نہ پڑھی جائے کہ یوں گناہ کا اظہار ہوگا، لہذا ان اوقات میں تنہائی کے اندر قضا نماز پڑھے۔

تین اوقات مكروه كے علاوہ کسی وقت بھی قضا نماز ادا کی جاسکتی ہے، چنانچہ در مختار مع حاشیہ رد المحتار میں ہے:

و جمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثة المنھیة(و ھي الطلوع و الاستواء و الغروب)

ترجمہ: تین مکروہ اوقات یعنی طلوع، نصف النہار اور غروب کے علاوہ تمام عمر قضا نمازیں ادا کرنے کا وقت ہے۔ (در مختار مع رد المحتار،جلد2، کتاب الصلاة، صفحہ 633 - 634،دار المعرفۃ بیروت)

جن اوقات میں نفل نماز پڑھنا منع ہے جیسے طلوعِ فجر و نماز عصر کے بعد، ان میں بھی قضا نماز پڑھنا شرعاً بلا کراہت جائز ہے، چنانچہ تحفۃ الفقہاء میں ہے:

و أما الأوقات الأخر التي تكره الصلاة فيها لمعنى في غير الوقت فمنها بعد طلوع الفجر إلى أن يصلي الفجر و بعد صلاة الفجر إلى أن تطلع الشمس وبعد صلاة العصر إلى أن تتغير الشمس للغروب فلا خلاف أن أداء التطوع المبتدأ مكروه فيها و لا خلاف أن قضاء الفرائض والواجبات يجوز فيها من غير كراهة

ترجمہ: اور جہاں تک دوسرے اوقات کا تعلق ہے جن میں وقت کے علاوہ کسی اور وجہ سے نماز مکروہ ہے، تو ان اوقات میں سے فجر طلوع ہونے کے بعد سے فجر کی نماز ادا کرنے تک اور فجر کی نماز کے بعد سے سورج نکلنے تک کا وقت ہے، اور عصر کی نماز کے بعد سے یہاں تک غروب کیلئے سورج کے زرد پڑنے تک کا وقت۔ تو اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ان اوقات میں نفل نماز شروع سے پڑھنا مکروہ ہے، اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ فرض اور واجب نمازوں کی قضا ان اوقات میں بغیر کسی کراہت کے جائز ہے۔ (تحفۃ الفقھاء، جلد 1، صفحہ 106، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

قضا نماز کو علی الاعلان مسجد میں یا لوگوں کے سامنے ادا نہ کیا جائے، چنانچہ بحر الرائق میں ہے:

قد صرحوا بأن الفائتة لا تقضى في المسجد لما فيه من إظهار التكاسل في إخراج الصلاة عن وقتها فالواجب الإخفاء

ترجمہ: فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ فوت شدہ نماز مسجد میں قضا نہیں کی جائے گی، کیونکہ اس میں نماز کو اس کے وقت سے نکالنے میں سستی ظاہر کرنا پایا جاتا ہے، اس لیے اسے پوشیدہ طور پر ادا کرنا واجب ہے۔ (بحر الرائق، جلد 1، صفحہ 276، دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

در مختار میں ہے:

و ینبغي أن لا یطلع غیرہ علی قضائہ؛ لأن التأخیر معصیة فلا یظھرھا

ترجمہ: اور چاہیے کہ اس کے علاوہ کوئی شخص اس کی قضا پر مطلع نہ ہو، کیونکہ تاخیر کرنا گناہ ہے، لہٰذا اسے ظاہر نہ کرے۔ (در مختار، جلد 2،صفحہ 650، دار المعرفۃ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-851

تاریخ اجراء: 14 صفر المظفر 1447ھ / 09 اگست 2025ء