فجر کی اذان کے بعد نماز کا اعلان کرنا کیسا؟

جماعت کی اطلاع کے لیے اذان و اقامت کے درمیان صلوٰۃ پڑھنا کیسا؟

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ فجر کی اذان کے بعد اقامت سے پہلے اسپیکر پر ”الصلوة و السلام علیک یا رسول اللہ، الصلوۃ و السلام علیک یا حبیب اللہ“کے ذریعے نماز کا اعلان کرنا کیسا؟

سائل:(علی حسن،فیصل آباد)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اذان کے بعد اقامت سے پہلے دوبارہ اعلان کرنے کو شریعت میں تثویب کہتے ہیں۔نمازِ مغرب کے علاوہ بقیہ تمام نمازوں میں تثویب کہنا مستحسن یعنی اچھا عمل ہے۔نماز مغرب میں دوبارہ اعلان نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ نماز مغرب میں (اذان و قیامِ جماعت کے درمیان) وقت تنگ ہونے کی وجہ سے نمازی اذان کے وقت ہی مسجد میں موجود ہوتے ہیں۔ فجر میں تثویب میں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، ایک یہ کہ دو تین مختصر درود شریف کے صیغے پڑھیں، اس سے زیادہ نہیں اور دوسری بات، اسپیکر کی آواز معتدل ہو، لوگوں کے کان پھاڑنے اور تکلیف دینے والی نہ ہو جیسا کہ عموما ہوتی ہے۔

شریعت نے تثويب کے لیے خاص الفاظ مقرر نہیں فرمائے، بلکہ ہر جگہ کے عرف و عادت کے مطابق تثویب کہی جائے، چاہے ”الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ“کے الفاظ کے ذریعے اعلان ہو یا یہ اعلان کہ ”جماعت کھڑی ہوگئی ہے“ یا کوئی بھی ایسا قول یا فعل کہ جس میں دوبارہ اطلاع دینا ہو، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں فجر کی اذان کے بعد اقامت سے پہلے اسپیکر پر

الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ، الصلوۃ و السلام علیک یا حبیب اللہ

 کے ذریعے دوبارہ اطلاع دینا بالکل درست اور شرعاً ایک مستحسن عمل ہے۔

تثویب کیا ہے؟ چنانچہ علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 616ھ / 1219ء) لکھتےہیں:”معنی التثویب العود الی الاعلام بعد الاعلام الاول“ترجمہ: تثویب کا معنی ہے اعلانِ اول (یعنی اذان) کے بعد (نماز کے لیے) دوبارہ اعلان کرنا۔ (المحیط البرھانی، جلد 1، کتاب الصلاۃ، صفحہ 344، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

تثویب اہلِ اسلام کے ہاں اچھا عمل ہے، جیسا کہ علامہ اکمل الدین رومی بابرتی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 786ھ / 1384ء) لکھتے ہیں:

احدث المتاخرون التثویب بین الاذان والاقامة علی حسب ما تعارفوه فی جمیع الصلوات سوی المغرب مع ابقاء الاول وما رآه المؤمنون حسنا فهو عند اللہ حسن

ترجمہ:متاخرین نے اصل (یعنی تثویب فجر) کو باقی رکھنے کے ساتھ نمازِ مغرب کے علاوہ ہر نماز کی اذان واقامت کے درمیان متعارف طریقہ پر تثویب کو رائج کیا ہے اور جسے مسلمان بہتر جانیں، وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بہتر ہوتا ہے۔ (العنایۃ شرح الھدایۃ، جلد 1، کتاب الصلاۃ، باب الاذان، صفحہ 246، مطبوعہ دار الفکر)

مغرب میں تثویب نہیں ہے۔درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

(یثوب و یجلس بینهما الا فی المغرب) فلان التثویب لاعلام الجماعة وهم فی المغرب حاضرون لضیق وقته ملتقطا

ترجمہ: اذان اور اقامت کے درمیان تثویب کہی جائے گی اور ان دونوں کے درمیان بیٹھا جائے گا، سوائے مغرب کے، کیونکہ تثویب جماعت کے متعلق اعلان کے لیے ہوتی ہے اور مغرب میں نمازی وقت کے تنگ ہونے کی وجہ سے (اذان کے وقت ہی) موجود ہوتے ہیں۔ (دُررالحکام شرح غرر الاحکام، جلد 1، صفحہ 56، مطبوعہ دار احیاء الكتب العربیة)

اذان کے بعد صلاۃ کہنے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”اسے فقہ میں تثویب کہتے ہیں، یعنی مسلمانوں کو نماز کی اطلاع اذان سے دے کر پھر دوبارہ اطلاع دینا اور وہ شہروں کے عرف پر ہے، جہاں جس طرح اطلاعِ مکرر رائج ہو، وہی تثویب ہے، خواہ عام طور پر ہو جیسے ’’صلاۃ‘‘ کہی جاتی ہے یا خاص طریقہ پر، مثلاً کسی سے کہنا اذان ہوگئی یا جماعت کھڑی ہوتی ہے یا امام آگئے یا کوئی قول یا فعل ایسا جس میں دوبارہ اطلاع دینا ہو، وہ سب تثویب ہے اور اس کا اور صلاۃ کا ایک حکم ہے، یعنی جائز۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 5، صفحہ 361، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں:”متاخرین نے تثویب مستحسن رکھی ہے، یعنی اَذان کے بعد نماز کے ليے دوبارہ اعلان کرنا اور اس کے ليے شرع نے کوئی خاص الفاظ مقرر نہیں کيے، بلکہ جو وہاں کا عرف ہو، مثلاً

اَلصَّلوۃُ اَلصَّلوۃُ یا قَامَتْ قَامَتْ یا اَلصَّلوَۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ۔

مغرب کی اَذان کے بعد تثویب نہیں ہوتی۔ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 474، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9544

تاریخ اجراء: 12ربیع الثانی1447ھ/06اکتوبر2025ء