فرض نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا

نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ جماعت کے ساتھ فرض نماز پڑھنے کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کون سا ذکر درست ہے؟سائل: ڈاکٹر مشتاق احمد (قاضی آباد، راولپنڈی)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اللہ تعالیٰ کا ذکر اعمال میں سے افضل ترین عمل، بلکہ جملہ اچھے اعمال کی اصل ہے، یہاں تک کہ ایمان کے بعد ارکانِ اسلام میں سے سب سےبڑ ے ر کن نماز سے بھی یہی مقصود ہے، اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی کثرت کا حکم ارشاد فرمایا اور ہر حال میں بکثرت ذکر کرنے والوں کی تعریف قرآن ِ پاک میں بھی بیان فرمائی ہےاور خاص طور پر فرض نماز کے بعدمطلقاً ذکر بالجہر کرنا، نہ صرف جائز و مستحسن ہے، چاہے کلمہ طیبہ کا ذکر ہو، درود شریف ہو، حمد الٰہی ہو، تکبیر ہو یا کوئی دعاہو، بلکہ یہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی ثابت ہے۔ جب نماز کے بعد ذکر کرنا جائز و مستحسن ہے، توجس جگہ پر جو بھی ذکر نماز کے بعد رائج ہے، وہ ذکر کر لیا جائے، اگر کوئی ذکر رائج نہیں ہے، تو اپنے طور پر کوئی بھی مختصر ذکر کر سکتے ہیں، جیسے کہ تین مرتبہ استغفار پڑھنا وغیرہ۔

کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

”وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ‘‘

  ترجمہ کنز العرفان: اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، تاکہ فلاح پاؤ۔ (پارہ: 10، سورۃ الانفال، آیت: 45)

ہر حال میں ذکر کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

”الَّذِیۡنَ یَذْکُرُوۡنَ اللہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ۔۔الخ‘‘

 ترجمہ کنز العرفان: جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلؤوں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں۔ (پارہ: 4، سورۃ آل عمران، آیت: 191)

بلکہ خاص نماز کے بعد ذکر کرنا تو قرآنِ پاک سے بھی ثابت ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

فَاِذَا قَضَیۡتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِکُمْ‘‘

  ترجمہ کنز العرفان: پھر جب تم نماز پڑھ لو تو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے اللہ کو یاد کرو۔ (پارہ: 5، سورۃ النساء، آیت: 103)

اس آیت کے تحت تفسیرِ نور العرفان میں ہے: ’’فرض نماز کے بعد جو بلند آواز سے کلمہ پڑھتے ہیں یا درود شریف پڑھتے ہیں وہ جائز، بلکہ بہتر ہے، یہ آیت اس کا ماخذ ہے۔ بعد نماز بلند آواز سے ذکر کی بہت سی احادیث ہیں۔‘‘ (تفسیرِ نور العرفان، تحت ھذہ الاٰیہ)

ایمان کے بعد ارکانِ اسلام میں سے سب سے بڑے ر کن نماز سے بھی یہی مقصود اللہ کا ذکر ہی ہے، اللہ تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے:

”وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیۡ‘‘

 ترجمہ کنز العرفان: اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ (پارہ: 16، سورۃ طٰہٰ، آیت: 14)

سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں: ”ذکر الہی افضل الاعمال بلکہ اصل جملہ اعمال حسنہ صالحہ ہے، یہاں تک کہ بعد ایمان اعظم ارکان اسلام نماز سے بھی وہی مقصود ہے۔

قال اللہ تعالیٰ: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیۡ

 ترجمہ: میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (فتاوی رضویہ ج23، ص178,179، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

جماعت کے ساتھ نماز کے بعد ذکر کے بارے میں صحیح بخار ی کی حدیث مبارک میں ہے:

”ان ابن عباس أخبرہ أن رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان علی عھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقال ابن عباس کنت أعلم إذا انصرفوا بذٰلک إذا سمعتہ‘‘

 یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بیان کیا کہ بلند آواز سے ذکر کرنا جبکہ لوگ فرض نماز سے فارغ ہوں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ مقدسہ میں معروف تھا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں لوگوں کے نماز سے فارغ ہونے کو ان کی طرف سے بلند ذکر کو سننے کی وجہ سے پہچان لیا کرتا تھا۔ (صحیح بخاری ج1، ص116، قدیمی کتب خانہ کراچی)

اس حدیث مبارکہ کے تحت ملاعلی القاری میں ہے:

’’إن رفع الصوت بالذكر على اختلاف أنواعه من تهليل و تسبيح و تكبير حين ينصرف الناس من المكتوبة كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، أي: كان موجودافي زمنه صلى الله عليه وسلم بعد كل صلاة من الصلوات الخمس، فإن أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كانوا إذا فرغوا من الصلاة المكتوبة وانتهوا من صلاة الجماعة معه صلى الله عليه وسلم في مسجده رفعوا أصواتهم بذكر الله مهللين مكبرين وكان صلى الله عليه وسلم يقرهم على ذٰلك وقال ابن عباس رضي الله عنهما: كنت أعلم إذا انصرفوا بذٰلك إذا سمعته أی: كنت أعرف إنتهاءهم من صلاة الجماعة بإرتفاع أصواتهم بهٰذا الذكر حيث كانوا يذكرون الله بأصوات عالية تسمع من بعيد۔۔ استدل به بعض السلف على استحباب رفع الصوت بالذكر عقب الصلاة المكتوبة وهو مذهب ابن حزم‘‘

ترجمہ: جب لوگ فرض نماز سے فارغ ہو جائیں، تو اس وقت ذکر کی مختلف انواع یعنی کلمہ طیبہ، تسبیح اورتکبیروغیرہ کا بلند آواز سے ذکر کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں بھی تھا، یعنی پانچوں نمازوں میں سے ہر نماز کے بعد تھا۔پس بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے اور جب فرضوں سے فارغ ہوتے، تو کلمہ طیبہ اور اللہ اکبر کا بلند آواز سے ذکر کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان کے ساتھ مل کر ذکر کرتے اورحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے ارشادفرمایا: صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بلند آواز سے ذکر کرنے کے بعد میں پہچان لیتا تھا کہ جماعت ختم ہو چکی ہے، کیونکہ وہ بہت اونچی آواز سے ذکر کرتے تھے، جو دور سے سنائی دیتی تھی۔اس حدیث ِ مبارکہ سے بعض اسلاف نے یہ استدلال کیا کہ فرض نماز کے بعد اونچی آواز سے ذکر کرنا مستحب ہے اوریہی ابن حزم کا قول ہے۔ (منار القاری مختصر شرح صحیح البخاری، ج2، ص218، مطبوعہ، مکتبہ دار البیان)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی مروی ہے:

”إن رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان علی عھد النبی صلی اللہ علیہ و سلم‘‘

یعنی فرائض سے فارغ ہو کر بلند آواز سے ذکر اللہ کرنا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے زمانہ میں مروج تھا۔ (مسلم شریف ج 1، ص 217، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی )

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

”کنا نعرف انقضاء صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالتکبیر‘‘

یعنی ہم تکبیر کی آواز سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نماز کا اختتام معلوم کرتے تھے۔ (مسلم شریف ج 1، ص 217، قدیمی کتب خانہ کراچی )

اس حدیث کو جاء الحق میں نقل کرنے کے بعد مولانا مفتی احمد یارخان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”یعنی عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بوجہ صغر سنی کے بعض جماعت نماز میں حاضر نہ ہوتے تھے، فرماتے ہیں کہ نماز کے بعد مسلمان اس قدر بلند آواز سے تکبیر کہتے تھے کہ ہم گھروں کے لوگ سمجھ جاتے تھے کہ اب نماز ختم ہوئی‘‘۔ (جاء الحق، حصہ اول ص 321، مکتبہ اسلامیہ، اردو بازار، لاھور )

حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

”قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا سلم من صلوتہ یقول بصوتہ الأعلی لآ إلٰہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک و لہ الحمد و ھو علٰی کل شیٔ قدیر‘‘

یعنی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے فرمایا کرتے تھے لآ إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک و لہ الحمد و ھو علٰی کل شیٔ قدیر۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج1، ص90، مطبوعہ لاھور)

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

”إن النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کان یقول فی دبر کل صلٰوۃ مکتوبۃ لا إلٰہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک و لہ الحمد و ھو علٰی کل شیٔ قدیر‘‘

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد فرمایا کرتے تھے، لا إلٰہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک و لہ الحمد و ھو علٰی کل شیٔ قدیر۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج1، ص90، مطبوعہ لاھور)

یہاں تک تو ثابت ہو گیا کہ فرائض کے بعد ذکر کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، البتہ ذکر کرنے والوں کو یہ احتیاط کرنی چاہئے کہ معمول کے مطابق درمیانی آواز سے ہی ذکر کریں، بہت اونچی آواز سے ذکر نہ کریں کہ جس سے اپنے آپ کو یا نماز پڑھنے والوں کو یا تلاوت قرآن کرنے والوں کو تکلیف ہو۔ نیز جن فرائض کے بعد سنتیں ہیں، جیسا کہ ظہر، مغرب اور عشاءتو ان نمازوں میں فرائض کے بعد معمول کے مطابق ہی ذکر کریں، آیت الکرسی یا دس مرتبہ کلمہ توحید پڑھنے کی مقدار سے زیادہ فاصلہ نہ کریں، کیونکہ زیادہ فاصلہ کرنا خلاف اولیٰ ہے۔

سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے فرض نماز کے بعد ذکر اللہ کرنے اور اس سے منع کرنے والوں کے بارے میں سوال ہوا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر اللہ کے فضائل اور فرائض کے بعد ذکر کرنے کا جواز بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا: ’’جس چیز کی تکثیر شارع کو مطلوب ہو، اس کی تقلیل نہ چاہے گا، مگروہ جسے شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ضد ہے۔ رہا خوفِ ریا وہ متعلق بہ قلب ہے۔ ریا سے اگر نماز ہو تو وہ بھی ناجائز ہے، مگر عقل ودین والا ریا سے منع کرے گا، نماز سے نہ روکے گا۔۔ہاں! دوسرے مسلمانوں کی ایذا نہ ہونے کا لحاظ لازم ہے۔ سو توں کی نیند میں خلل نہ ہو، نمازیوں کی نماز میں تشویش نہ ہو‘‘ کما نص علیہ فی البحرالرائق وردالمحتار وغیرھا‘‘ جیسا کہ البحرالرائق اور ردالمحتار میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔ جب وقت لوگوں کی نیند کاہو یا کچھ نماز پڑھ رہے ہوں، تو ذکر کرو جس طرح (چاہو)مگر نہ اتنی آواز سے کہ ان کو ایذا ہو۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج23، ص179، مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اور ایک اور مقام پر اُن نمازوں میں فرائض کے بعد مناجات وغیرہ کرنے کے بارے میں سوال ہوا کہ جن میں فرائض کے بعد سنتیں بھی ہوتی ہیں، تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’جائز و درست تو مطلقاً ہے، مگر فصلِ طویل مکروہِ تنزیہی و خلافِ اولی ہے اور فصلِ قلیل میں اصلاًحرج نہیں، در مختار فصل صفۃ الصلوٰۃ میں ہے:

”یکرہ تاخیر السنۃ إلا بقدر أللھم أنت السلام الخ و قال الحلوانی لا بأس بالفصل بالأوراد و اختارہ الکمال قال الحلبی إن أرید بالکراھۃ التنزیھیۃ ارتفع الخلاف قلت و فی حفظی حملہ علی القلیلۃ‘‘

سنتوں کو مؤخر کرنا مکروہ ہے، مگر أللھم أنت السلام الخ کی مقدار۔ حلوانی نے کہا اوراد اور دعاؤں کی وجہ سے فصل میں کوئی حرج نہیں ہے، کمال نے اسے مختار قرار دیا ہے، حلبی نے کہا ہے کہ اگر کراہت سے مراد کراہت تنزیہی ہو تو اختلاف ہی ختم ہو جاتا ہے، میں کہتا ہوں، مجھے یاد آتا ہے کہ حلوانی نے اسے اوراد قلیلہ پر محمول کیا ہے۔۔۔۔آیۃ الکُرسی یا فرض مغرب کے بعد دس بار کلمہ توحید پڑھنا فصلِ قلیل ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج6، ص234تا237 ملخصاً، مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر : Pin-7573

تاریخ اجراء  24  رمضان المبارک 1446ھ 25 مارچ2025ء