دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
میری بہن کچھ باتوں کو ہلکا ہلکا سمجھ لیتی ہیں، لیکن وہ بول نہیں سکتیں۔ بولنے میں بھی دقت ہے، اور باتوں کو سمجھنے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔ تو ایسی صورت میں جب وہ زبان سے کچھ نہیں پڑھ سکتیں، تو ان کے لیے نماز ادا کرنے کا کیا شرعی حکم ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شریعت کے احکام کے مکلف ہونے کی بنیاد عقل اور بلوغت پر ہے، نہ کہ جسمانی صحت پر۔ لہٰذا اگر کوئی شخص عاقل و بالغ ہے، لیکن اندھا، بہرا یا گونگا ہے، تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق شریعت کے احکام کا مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔ جس قدر وہ شخص طاقت رکھتا ہے، اسی حد تک اس پر عمل کرناضروری ہے۔ لہذا گونگا نماز کے تمام افعال (جیسے قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، قعدہ) ویسے ہی ادا کرے گا جیسے عام مسلمان کرتے ہیں۔ اورتلاوت، تکبیرات اور دُعائیں چونکہ وہ زبان سے نہیں پڑھ سکتا، اس لیے وہ دل میں ارادہ کرے گا۔
موسوعہ فقہیہ میں ہے
”يصير الكافر مسلما بالإذعان بالقلب والنطق بالشهادتين إن كان قادرا على النطق، فإن كان عاجزا عن النطق لخرس، فإنه يكتفى في إسلامه بالإشارة مع قيام القرائن على أنه أذعن بقلبه ۔۔۔ تشتمل الصلاة على أقوال وأفعال، ومن الأقوال ما هو فرض، كتكبيرة الإحرام والقراءة، ومنها ما هو سنة كالتكبيرات الأخرى. فمن كان عاجزا عن النطق لخرس تسقط عنه الأقوال، وهذا باتفاق الفقهاء واختلفوا في وجوب تحريك لسانه بالتكبير والقراءة ۔۔۔ وهو الصحيح عند الحنفية، لا يجب على الأخرس تحريك لسانه، وإنما يحرم للصلاة بقلبه؛ لأن تحريك اللسان عبث، ولم يرد الشرع به“
ترجمہ: کافر مسلمان بن جاتا ہے دل سے تصدیق (یعنی ایمان لانے) اور زبان سے دو گواہیوں (یعنی کلمۂ شہادت) کے ادا کرنے سے، بشرطیکہ وہ بولنے پر قادر ہو۔ اگر وہ گونگا ہونے کی وجہ سے بولنے سے عاجز ہو تو اس کے اسلام کے لیے اشارہ کافی ہے، بشرطیکہ دل سے تصدیق (یعنی ایمان) پر دلالت کرنے والی علامات موجود ہوں۔نماز میں اقوال اور افعال شامل ہیں۔ ان اقوال میں سے بعض فرض ہیں، جیسے تکبیرِ تحریمہ اور قراءت، اور بعض سنت ہیں، جیسے دیگر تکبیریں۔ پس جو شخص گونگا ہونے کی وجہ سے بولنے سے عاجز ہو، اس سے اقوال ساقط ہو جاتے ہیں، اور اس پر فقہا کا اتفاق ہے۔ لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ کیا اس پر زبان کو حرکت دینا (یعنی منہ ہلانا) لازم ہے یا نہیں؟ تو صحیح قول احناف کے نزدیک یہ ہے کہ گونگے پر زبان ہلانا بھی واجب نہیں، بلکہ وہ دل میں نیت سے نماز شروع کرے، کیونکہ صرف زبان ہلانا بے فائدہ حرکت ہے، اور اس کا کوئی شرعی ثبوت نہیں۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ، جلد19، صفحہ92 ، 93، دارالسلاسل، کویت )
فتاوی رضویہ میں ہے
”تکبیر تحریمہ در ہر نماز مطلقا حتی صلاۃ الجنازۃ ورکوع وسجود و قرأت وقعود درہر نمازِ مطلق اگرچہ نافلہ باشد وقیام در ہر نماز فرض و واجب ونیز در سنّت فجر علی الاصح وخروج بصنع خود علی تخریج البروعی بخلاف الکرخی اینہمہ فرض است وتعدیل ارکان واجب و قدرت ہمہ جاشرط است اخرس رابتکبیر وقرأت ومریض مؤمی را بررکوع وسجود تکلیف ندہند“
ترجمہ: تکبیر تحریمہ، ہر نماز میں، حتی کہ نماز جنازہ میں بھی۔ رکوع، سجود، قرأت اور قعود (نماز جنازہ کے علاوہ) ہر نماز میں، خواہ نفلی نماز ہو۔ قیام، ہر اس نماز میں جو فرض اور واجب ہو اور اصح قول کے مطابق فجر کی سُنّتوں میں بھی۔ اپنے کسی عمل سے نماز سے فجر کی سُنّتوں میں بھی۔ اپنے کسی عمل سے نماز سے خارج ہونا بروعی کی تخریج کے مطابق، کرخی کا اس میں اختلاف ہے۔ یہ سب فرائض ہیں اور تعدیل ارکان واجب ہے۔ لیکن استطاعت سب میں شرط ہے۔ گونگا تکبیر وقرأت کا اور اشارہ کرنے والا مریض رکوع وسجود کا مکلّف نہیں ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد5، صفحہ326، رضا فاؤندیشن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے ”جو شخص تکبیر کے تلفظ پر قادر نہ ہو مثلاً گونگا ہو یا کسی اور وجہ سے زبان بند ہو، اس پر تلفظ واجب نہیں، دل میں ارادہ کافی ہے۔“ (بہار شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ508، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4181
تاریخ اجراء: 09ربیع الاول1447 ھ/03ستمبر 2520 ء