
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کہا جاتا ہے كہ حطیم کے اندر اللہ کے نبی حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ و السلام کی قبر مبارک ہے، تو ایسی صورت میں حطیم میں نمازیں پڑھنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
روایات و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ مطاف میں حجرِ اسود اور زمزم کے درمیان یا رکنِ یمانی اور رکنِ اسود کے درمیان ستر انبیائے کرام علیہم السلام کے مزارات ہیں، اور یہ بھی منقول ہےکہ حطیمِ کعبہ میں میزابِ رحمت کے نیچے حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور آپ کی والدہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا مدفون ہیں۔ تاہم ان تفصیلات میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے، اور ان مقامات پر انبیاء کرام علیہم السلام کے مزارات کی تعداد اور اس کے وقوع کی جگہوں سے متعلق کوئی حتمی روایت منقول نہیں۔نہ ہی ان مزارات کا صحیح و اضح تعین موجود ہے ، اور نہ ہی وہاں مزار کی کوئی ظاہری علامت پائی جاتی ہے۔ روایات و آثار کی بنا پر ان مقامات پر مزارات کے وجود کو مانتے ہوئے اور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام علیھم الرضوان کے ان مقامات پر چلنے پھرنے، نمازیں پڑھنے کے قطعی ثبوت کے ہوتے ہوئے ہم تاویل کریں گے مثلا ممکن ہے کہ وہ مزارات فرش کے نیچے کہیں گہرائی میں اس طرح واقع ہوں گے کہ ان پر براہِ راست نماز پڑھنایا چلنا نہیں پایا جاسکتا، بلکہ درمیان میں ایک واضح فاصلہ ہونے کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنا، شرعاً قبر پر نماز پڑھنے کے حکم میں داخل نہیں ہوگا۔ بہرحال حطیمِ کعبہ اور مطاف میں نماز پڑھنا شرعاً بلا کراہت جائز ہے، بلکہ حطیمِ کعبہ تو نماز کے لیے افضل مقامات میں سے ہے اور وہ کعبہ مشرفہ کا ہی حصہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حطیمِ کعبہ میں داخل کر کے ارشاد فرمایا: اگر تم کعبہ میں نماز پڑھنا چاہتی ہو تو حطیم میں پڑھ لو، کیونکہ یہ کعبہ ہی کا حصہ ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آپ کی والدہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کا مزار مبارک، حطیم میں میزاب رحمت کے نیچے ہے اور حطیم کعبہ نماز کی افضل جگہوں میں سے ہے، چنانچہ مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
أن مرقد إسماعيل - عليه السلام - في المسجد الحرام عند الحطيم، ثم إن ذلك المسجد أفضل مكان يتحرى المصلي لصلاته،۔۔۔ و ذكر غيره أن صورة قبر إسماعيل - عليه السلام - في الحجر تحت الميزاب، و أن في الحطيم بين الحجر الأسود و زمزم قبر سبعين نبيا‘‘ ملتقطاً
ترجمہ: حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مزار مسجد حرام میں حطیم کے پاس واقع ہے، اور بلاشبہ وہ جگہ افضل مقام ہے جہاں نمازی نماز کے لیے رغبت کرتا ہے۔۔۔ اور بعض دیگر حضرات نے ذکر کیا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر کی جگہ حجر (حطیم) میں پرنالے کے نیچے ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حطیم میں حجر اسود اور زمزم کے درمیان کے حصے میں ستر انبیاء کے مزارات ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 2، صفحہ 601، دار الفكر، بيروت)
نبی کریم علیہ السلام نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حطیمِ کعبہ میں نماز پڑھنے کا حکم دیا، چنانچہ جامع ترمذی کی حدیث مبارکہ ہے:
عن عائشة قالت: كنت أحب أن أدخل البيت فأصلي فيه، فأخذ رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم بيدي فأدخلني الحجر، فقال: «صلي في الحجر إن أردت دخول البيت، فإنما هو قطعة من البيت، و لكن قومك استقصروه حين بنوا الكعبة فأخرجوه من البيت»
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےرواہے ہے، فرماتی ہیں: مجھے یہ پسند تھا کہ میں بیت اللہ میں داخل ہوکر نماز پڑھوں، تو رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حجر (حطیم) میں داخل کیا، اور فرمایا: اگر تم کعبہ میں داخل ہونا چاہتی ہو، تو حجر (حطیم) میں نماز پڑھو، کیونکہ یہ کعبہ ہی کا حصہ ہے، لیکن تمہاری قوم نے جب کعبہ بنایا تو اس کو چھوٹا کر دیا، اور اس حجر(حطیم) کو کعبہ سے باہر نکال دیا۔ (جامع ترمذی، جلد 3، صفحہ 216، رقم الحدیث: 876، مطبوعہ مصر)
جس جگہ کے بارے میں کسی نبی کا مدفن ہونا مشہور تو ہو، لیکن وہاں نمازی قبر ہونے کی کوئی علامت نہ دیکھے، تو اس جگہ نماز پڑھ سکتا ہے، چنانچہ لمعات التنقیح فی شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے:
و قال التُّورِبِشْتِي: فأما إذا وجد بقربها موضع بُني للصلاة، أو مكان يسلم المصلي فيه عن التوجه إلى القبور، فإنه في فسحة من الأمر، و كذلك إذا صلى في موضع قد اشتهر بأن فيه مدفن نبيٍّ، و لم ير للقبر فيه عَلَمًا، و لم يكن قصده ما ذكرناه من العمل الملتبس بالشرك الخفي، إذ قد تواطأت أخبار الأمم على أن مدفن إسماعيل عليه السلام في المسجد الحرام عند الحطيم، و هذا المسجد أفضل مكان تتحرى الصلاة فيه
ترجمہ: علامہ توربشتی نے فرمایا: اگر قبر کے قریب کوئی ایسی جگہ موجود ہو جو نماز کے لیے بنائی گئی ہو، یا کوئی ایسی جگہ ہو جہاں نمازی کو قبروں کی طرف متوجہ ہونے سے بچاؤ حاصل ہو، تو پھر اس کے لیے (نماز پڑھنے کے بارے میں) وسعت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ایسی جگہ ہو جو اس بات سے مشہور ہو کہ وہاں کسی نبی کا مدفن ہے، اور نمازی قبر کی کوئی علامت وہاں نہ دیکھے، اور نمازی کا ارادہ وہ نہ ہو جس کو ہم نے ذکر کیا یعنی وہ عمل جو شرک خفی کے ساتھ متعلق ہے (یعنی انبیاء کے مدافن میں نماز پڑھنے کا خاص اس نیت سے اہتمام کرنا کہ عبادت کے وقت ان کی قبور کی طرف رخ کرنے کا عمل اللہ کے نزدیک زیادہ ثواب رکھنے والا ہے) تو (وہاں بھی نماز پڑھنے میں) کوئی حرج نہیں، کیونکہ امتوں کی خبریں اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مدفن مسجدِ حرام میں حطیم کے پاس ہے، اور نماز پڑھنے کی یہ افضل جگہ ہے جس میں نماز کی حرص کی جاتی ہے۔ (لمعات التنقیح فی شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 2، صفحہ 468، 469، مطبوعہ دمشق)
حطیم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر کی جگہ متعین جگہ معلوم نہیں اور نہ اس کی کوئی ظاہری علامت ہے تو ظاہری حالت کا اعتبار کرتے ہوئے وہاں نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں، بلکہ اس جگہ کی افضلیت منصوص ہے چنانچہ حاشیہ ضیاء الابصار علی منسک الدر المختار میں ہے:
(قولہ: و بہ قبر اسماعیل) لا یخفی ان عدم کراھۃ الصلاۃ فیہ لعدم تحقق موضع القبور فیہ؛ و لأن ذلک لم یثبت بدلیل قطعی
ترجمہ: (صاحب درمختار کا قول: اور حطیم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر ہے) پوشیدہ نہیں کہ اس میں قبروں کا صحیح مقام متعین نہ ہونے کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنے میں کراہت نہیں، اور اس لئے بھی کہ یہاں قبر ہونا دلیل قطعی سے ثابت نہیں۔ (حاشیہ ضیاء الابصارعلی منسک الدر المختار، صفحہ 100، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
قبر کے اردگرد دیواریں یا ستون قائم کرکے اوپر فرش بنادیا جائے، تو وہاں نماز کی ممانعت نہیں، چنانچہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مراۃ المناجیح میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’خیال رہے کہ قبر پر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا منع ہے لیکن اگر قبر پر ڈاٹ لگا کر اوپر فرش بنایا جائے تو وہاں بلاکراہت جائزہے چنانچہ کعبۃ اﷲ کے مطاف میں ۷۰ نبیوں کے مزارات ہیں جن پر طواف و نماز ہوتے ہیں، نیز کعبہ کے پرنالے کے نیچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مزار شریف ہے جہاں دن رات نمازیں پڑھی جاتی ہیں وہاں یہی وجہ (ممکن) ہے۔ (مرقاۃ و اشعہ)‘‘۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 431، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’قبور کے باہر باہر دیواریں یا ستون قائم کرکے مسقف(چھت قائم) کرتا ہے تو جائز ہے اور اس چھت پر چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھناوغیرہا افعال کی بھی اجازت ہے کہ یہ سقفِ مکان (مکان کی چھت) ہے سقف قبر (قبر کی چھت) نہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 534، رضافاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-849
تاریخ اجراء: 11 صفر المظفر 1447ھ / 06 اگست 2025ء