حروف میں فرق نہ کرنے والے کو امام بنانا کیسا؟

جو شخص حروف کے درمیان فرق نہ کر سکے ایسے کو امام بنانا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی شخص کی قراءت درست نہ ہو ، حروف کے درمیان فرق نہ کرتا ہو، تو کیا اس کو امام بنا سکتے ہیں؟

سائل: مبشر جاوید (فیصل آباد)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

قراءت کا معنیٰ یہ ہے کہ ہر حرف کو اس کے مخر ج ( اس کی اپنی جگہ ) سے اس طرح ادا کیا جائے کہ وہ دوسرے حرف سے ممتاز و جدا ہو جائے۔ جو اس طرح کی قراءت نہ کرسکتا ہو اسے امام بنانا ہرگزجائز نہیں۔

قراءت کی تعریف کے متعلق صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ”قراءت اس کا نام ہے کہ تمام حروف مخارج سے ادا کیے جائیں، کہ ہر حرف غیر سے صحیح طور پر ممتاز ہو جائے۔ (بھار شریعت جلد 1، حصہ 3، صفحہ 511، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

درست قراءت کرنا، فرض ہے، چنانچہ امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”بلا شبہ اتنی تجوید جس سے تصحیح حروف ہو اور غلط خوانی سے بچے، فرض عین ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 6، صفحہ 343، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

درست قراءت نہ کرنے کے سبب معنیٰ فاسد ہو گیا، تو نماز بھی فاسد ہو جائے گی، چنانچہ درمختار میں ہے:

و لو زاد كلمةً أو نقص كلمةً أو نقص حرفاً، أو قدمه أو بدله بآخر... لم تفسد ما لم يتغير المعنى

ترجمہ: اگر کسی شخص نے قراءت کے دوران کوئی کلمہ بڑھا دیا یا کم کر دیا یا حرف کم کر دیا یا مقدم کر دیا یا کسی دوسرے حرف سے بدل دیا، تو جب تک معنیٰ فاسد نہ ہو ، نماز فاسد نہیں ہوگی (اور اگر معنی ٰ فاسد ہو گیا، تو نماز نہیں ہوگی)۔ (درمختار، کتاب الصلاۃ ، جلد 1، صفحہ 632، 633، مطبوعہ بیروت)

علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:

و کذا من لا یقدر علی التلفظ بحرف من الحروف کا لرھمن الرھیم، و اشیتان الرجیم والآلمین،وایاک نأبد،و ایا ک نستئین، السرات، انأمت فکل ذلک حکمہ ما مر من بذل الجھد دائماوالا فلاتصح الصلاۃ بہ

ترجمہ: اسی طرح(صحیح قرات کرنے والااس شخص کی بھی اقتداء نہیں کرسکتا) جو کسی حرف کو ادا کرنے پر قادر نہ ہو جیسے

ا لرھمن الرھیم، و اشیتان الرجیم، الآلمین، و ایاک نأبد، و ایا ک نستئین، السرات، انأمت

 پڑھے تو ان تما م صورتوں میں اگر کوئی ہمیشہ درست ادائیگی کی کوشش کرتا ہے تو (اس کی اپنی) نماز درست ہو گی ، ورنہ نماز درست نہ ہو گی۔ (رد المحتار، جلد1، صفحہ 582، مطبوعہ بیروت)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”سوم :جو حروف وحرکات کی تصحیح ا ع،ت ط، ث س ص، ح ہ، ذ ز ظ وغیرہا میں تمیز کرے غرض ہر نقص و زیادت و تبدیل سے کہ مفسد معنی ہو احتراز یہ بھی فرض ہے اور علی التفصیل فرائض نماز سے بھی ہے کہ اسکا ترک مفسد نماز ہے جو شخص قادر ہے اور بے خیالی یا بے پروائی یا جلدی کے باعث اسے چھوڑتا ہے یا سیکھے تو آجائے مگر نہیں سیکھتا، ہمارے ائمہ کرام مذہب رضی اتعالیٰ عنہم کے نزدیک اس کی نماز باطل اور اس کی امامت کے بطلان اوراسکے پیچھے اوروں کی نماز فاسد ہونے میں تو کلام ہی نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 281، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہوا کہ ایک امام

الحمد والرحمن والرحیم  کو الھمدوالرہمان والرھیم

پڑھتا ہے ، تو آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃنے جواباً ارشاد فرمایا:”اُسے امام بنانا ہرگز جائز نہیں اورنماز اس کے پیچھے نادرست ہے کہ اگر وہ شخص ح کے ادا پر بالفعل قادر ہے اور باوجود اس کے اپنی بے خیالی یا بے پروائی سے کلمات مذکورہ میں ھ پڑھتا ہے۔تو خود اس کی نماز فاسد وباطل ،اوروں کی اسکے پیچھے کیا ہوسکے، اور اگر بالفعل ح پر قادر نہیں اور سیکھنے پر جان لڑاکر کوشش نہ کی تو بھی خود اس کی نماز محض اکارت ، اور اس کے پیچھے ہر شخص کی باطل، اور اگر ایک ناکافی زمانہ تک کوشش کر چکا پھر چھوڑ دی جب بھی خود اس کی نماز پڑھی بے پڑھی سب ایک سی، اور اُس کے صدقے میں سب کی گئی اور برابر حد درجہ کی کوشش کئے جاتا ہے مگر کسی طرح ح نہیں لکلتی تو اُس کاحکم مثل اُمّی کے ہے کہ اگر کسی صحیح پڑھنے والے کے پیچھے نماز مل سکے اور اقتداء نہ کرے بلکہ تنہا پڑھے تو بھی اسکی نماز باطل، پھر امام ہونا تو دوسرا درجہ ہے اور پر ظاہر ہے کہ اگر بالفرض عام جماعتوں میں کوئی درست خواں نہ ملے تو جمعہ میں تو قطعاً ہر طرح کے بندگان خدا موجود ہوتے ہیں پھر اس کا اُن کی اقتدا نہ کرنا اور آپ امام ہونا خود اس کی نماز کا مبطل ہوا، اور جب اس کی گئی سب کی گئی۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، جلد 6، صفحہ 253، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-9031

تاریخ اجراء: 03 صفر المظفر 1446ھ/ 09 اگست 2024ء