امام بغیر وضو نماز پڑھا دے تو مسافر مقتدی کتنی رکعتیں پڑھے؟

امام نے بغیر وضو نماز پڑھا دی تو مسافر مقتدی کتنی رکعتیں دوبارہ پڑھے گا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک شخص نے حالتِ سفر میں ایک مسجد کے مقیم امام کی اقتدا میں ظہر کی نماز ادا کی، عصر میں امام صاحب نے اعلان کیا کہ انہوں نے آج ظہر کی نماز بھولے سے بلا وضو پڑھادی تھی تو جن لوگوں نے ظہر میری اقتدا میں پڑھی ہے وہ اس نماز کو دوبارہ پڑھ لیں۔ مجھے پوچھنا یہ ہے کہ اب وہ مسافر شخص ظہر کی وہ نماز جو دوبارہ پڑھے گا وہ چار رکعات پڑھے گا یا دو رکعتیں؟

نوٹ: یہ شخص جس طرح نماز ظہر میں مسافر تھا، اسی طرح نماز عصر کے وقت جب اعلان ہوا تو اس وقت بھی مسافر ہی تھا، اس دوران اس نے کسی جگہ اقامت کی نیت نہیں کی تھی۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں وہ ظہر کی قضا پڑھتے ہوئے فقط دو رکعت ہی ادا کرے گا، اس لئے کہ شریعت مطہرہ  نے مسافر پر چار رکعات والی فرض نماز میں قصر کرنا لازم کیا ہے، البتہ اگر مسافر مقیم امام کی اقتدا میں نماز ادا کرے تو اب اقتدا کی وجہ سے اسے چار رکعتیں پڑھنے کا حکم ہوتا ہے لیکن چونکہ یہاں امام کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز ادا ہی نہیں ہوئی، تو یوں اصل حکم لوٹ آئے گا اور آخروقت تک مسافر ہو نے کی وجہ سے قصر کرنے کا ہی حکم ہوگا۔

شریعت مطہرہ کی طرف سےمسافر پر قصر کرنا لازم ہے جیسا کہ مختصر القدوری میں ہے:

”وفرض المسافر عندنا في كل صلاة رباعية ركعتان لا تجوز له الزيادة عليهما

 ترجمہ: ہمارے نزدیک مسافر کے لیے  چار رکعت والی نماز میں فرض ہی دو رکعتیں ہیں اور ان سے زیادہ  پڑھنا جائز نہیں۔ (مختصر القدوری مع جوھرۃ النیرۃ ، جلد 1، صفحہ 85، طبع: بیروت )

ہاں! مقیم امام کی متابعت کی وجہ سے مسافر پر چار لازم ہوتی ہیں، چنانچہ نور الایضاح اور اس کی شرح امداد الفتاح میں ہے:

”( وان اقتدی مسافر بمقیم) یصلی رباعیۃ ولو فی التشھد الاخیر(فی الوقت صح) اقتداءہ (واتمھا اربعا) وھکذا روی عن ابن عباس وابن عمر رضی اللہ عنھم، ولانہ تبع لامامہ فیتغیر فرضہ الی اربع“

ترجمہ:  مسافر نے نماز کے وقت کے اندر مقیم کی اقتدا کی جو چار رکعت والی نماز پڑھ رہا تھا اگرچہ مسافر قعدہ اخیرہ میں آیا ہو تو اس کی اقتدا درست ہوجائے گی اور وہ مسافر پوری چار رکعتیں ہی ادا کرے گا، اسی طرح حضرتِ سیدنا ابن عباس و سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرو ی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ مسافر مقتدی چونکہ اپنے امام کے تابع ہوتا ہے تو اس کا فرض چار کی طرف تبدیل ہوجائے گا۔ (نور الایضاح و امدادا لفتاح، صفحہ 471، طبع: کوئٹہ)

مقیم امام کی متابعت میں پڑھی جانے والی نماز اگر کسی وجہ سے اد انہیں ہوئی، تو اب متابعت کی وجہ سے جو حکم تھا وہ زائل ہوجائے گا اور اصل حکم لوٹ آئے گا، جیسا کہ مقیم امام کے پیچھے مسافر کے خود اپنی نماز فاسد کردینے کی صورت کے متعلق تبیین الحقائق ، جوہرۃ النیرہ ، بنایہ، رد المحتار وغیرہ کتب میں ہے:

اللفظ للاول: ”وإن أفسده يصلي ركعتين، لأن لزوم الأربع للمتابعة وقد زالت“

 ترجمہ: اور اگر مسافر  نے نماز فاسد کرلی تو نئے سرے سے دو پڑھے گا کیونکہ مسافر پر چار رکعات کا التزام متابعت کی وجہ سے تھا اور وہ تو ختم ہوچکی۔ (تبیین الحقائق، جلد 1، صفحہ 213، طبع: القاھرۃ )

اوربلا وضو پڑھی جانے والی نماز سرے سے ادا ہی نہیں ہوتی، یوں اس میں بھی مذکورہ بالا حکم ہی ہوگا، تحفۃ الفقہاء میں ہے:

”إذا صلى الإمام من غير طهارة أعادوا لأنه لا صحة لها بدون الطهارة فإذا لم تصح صلاة الإمام لم تصح صلاة القوم“

ترجمہ:  اور اگر امام نے بغیر طہارت نماز پڑھادی تو سب لوگ دوبارہ نماز  ادا کریں گے، کیونکہ بغیر طہارت نماز درست نہیں، تو جب امام کی نماز صحیح نہیں ہوئی تو  مقتدیوں کی نماز بھی صحیح نہیں ہوگی۔ (تحفۃ الفقھاء، جلد 1، صفحہ 252، طبع: بیروت )

اور چونکہ مذکورہ شخص آخری وقت تک مسافر ہی تھا، لہذا اس پر بدستور قصر کرنا ہی لازم رہے گا، رد المحتار میں ہے:

”لو صلى الظهر أربعا ثم سافر أي في الوقت فصلى العصر ركعتين ثم رجع إلى منزله لحاجة فتبين أنه صلاهما بلا وضوءٍ صلى الظهر ركعتين والعصر أربعا لأنه كان مسافرا في آخر وقت الظهر ومقيما في العصر

 ترجمہ: اگر کسی شخص نے ظہر چار رکعات ادا کی، اس کے بعد سفر کیا یعنی وقت میں ہی مسافر ہوگیا پھر عصر دو رکعت پڑھنے کے بعد کسی کام سے واپس گھر آیا  پھر معلوم ہوا کہ اس نے دونوں نمازیں بغیر وضو کے ادا کی تھیں تو ایسی صورت میں ظہر  دو رکعت پڑھے گا جبکہ عصر چار رکعات، کیونکہ یہ شخص ظہر کےآخری وقت میں مسافر تھا جبکہ عصر کے آخری وقت میں مقیم تھا۔ (رد المحتار، جلد 2، صفحہ 131، طبع: بیروت )

فتاوی نوریہ میں اسی طرح کا سوال حضرت مفتی نور اللہ نعیمی بصیر پوری علیہ الرحمۃ سے ہوا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”اگر وہ اقتدا بطورِ اداءِ فرض تھی اور اس کے وقت فوت ہونے تک مسافر تھا یا آخر وقت بھی مسافر تھا، تو صرف دو رکعت ہی قضاء کرے اور ایسے ہی اگر وقت کے اندر ادا کرے اور اکیلا پڑھے یا مسافر کی اقتداکرے، تو دو ہی پڑھےکہ مسافر پر دو ہی لازم ہیں اور متابعتِ مقیم کی وجہ سے چار لازم ہوتی ہیں اور جب نماز توڑ دی، تو متابعت چھوڑ دی، تو وہ لزوم بھی مرتفع ہو گیا اور یہ اظہر من الشمس ہے کہ اب جو پڑھ رہا ہے، اس میں اس امام کی متابعت کا کوئی شائبہ بھی نہیں۔

مزید لکھتے ہیں: ” وقت کے فوت ہونے تک یا صرف آخری وقت میں بھی مسافر ہونے کی قید اس لئے کہ اگر اس وقت نیتِ اقامت ہوتی تو اتمام (یعنی پوری چار رکعات پڑھنا) لازم ہوجاتا۔  )فتاوی  نوریہ، جلد 1، صفحہ 603، طبع:  بصیر پور  )

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0636

تاریخ اجراء22ربیع الاول     1447ھ/16ستمبر  2025ء