
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر امام نے مغرب کی نماز پڑھاتے وقت تیسری رکعت مکمل کرکے تشہد پڑھ لیا، اس کے بعد پھر سے سیدھے کھڑےہوگئے اور فوراً یاد آنے یا لقمہ ملنے پر دوبارہ بیٹھ گئے اور بغیر سجدہ سہو کیے سلام پھیر دیا، کیا ایسا کرنا درست تھا اور نماز ہوگئی یا بیٹھنے کے بعد اولاً دوبارہ تشہد پڑھتے اس کے بعد سجدہ سہو کرکے پھر سے تشہد پڑھتے اور سلام پھیرتے تو صحیح تھا؟ اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صورت مسئلہ میں قعدہ اخیرہ کے بعد بھولے سےسیدھے کھڑے ہو جانے کی صورت میں حکمِ شرعی یہ ہوتا ہے کہ جب تک اگلی رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو، نمازی پر واجب ہے کہ لوٹ آئے اور تشہد کا اعادہ کیے بغیر ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے اور اس کے بعد دوبارہ التحیات وغیرہ پڑھ کر نماز مکمل کر لے۔ اس صورت میں سجدہ سہو اس لئے لازم ہے کہ اس نے سلام میں تاخیر کی ہے جو کہ نماز کے واجبات میں سے ایک واجب ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں امام پر لازم تھا کہ سیدھے کھڑے ہوجانے کے بعد یاد آنے یا لقمہ ملنے پر فوراً بیٹھ جاتے اور تشہد پڑھے بغیر ہی ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ سہو کرتے لیکن چونکہ امام نے سجدہ سہو ہی نہیں کیا، لہذا ان کی اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے تمام لوگوں کی نماز واجب الاعادہ ہے، یعنی دوبارہ پڑھنا ضروری ہے، چاہے وقت باقی ہو یا ختم ہوگیا ہو، دونوں صورتوں میں یہی حکم ہے۔
حلبی کبیری میں ہے
(و ان قعد فی آخر) الرکعۃ (الرابعۃ ثم قام) قبل ان یسلم یعود ایضا ما لم یسجد و یسلم لیخرج عن الفرض بالسلام لانہ واجب۔۔۔ و یسجد للسھو لانہ اخر واجبا و ھو السلام
ترجمہ: اگر چوتھی رکعت میں قعدہ کیا، پھر سلام پھیرنے سے پہلے کھڑا ہو گیا، تو جب تک سجدہ نہ کیا ہو، لوٹ آئے اور سلام پھیرے تاکہ سلام کے ذریعہ فرض نماز سے باہر ہو کہ یہ واجب ہے ۔ اور سجدہ سہو کرے کیونکہ اس نے واجب میں تأخیر کی ہے یعنی سلام میں۔ (حلبی کبیری، صفحہ 400، طبع: کوئٹہ)
طوالع الانوار میں ہے
(بتاخیر السلام) الذی ھو واجب عن محلہ و کان ذلک عقیب فراغہ من التشھد و الصلاۃ و الادعیۃ فحیث تخلل القیام
ترجمہ: سلام میں تاخیر یعنی واجب کو اپنے محل سے مؤخرکرنے کے سبب (سجدہ سہو لازم ہو گا) اور سلام کا محل قعدہ اخیرہ میں تشہد، درود اور دعاؤں سے فارغ ہونے کے فوراً بعد ہے، تو یہاں قیام مخل ہو گیا۔ (طوالع الانوار، جلد 2، صفحہ 379، مخطوطہ غیر مطبوعہ)
تنویر الابصار و در مختار میں ہے
(و إن قعد في الرابعة) مثلا قدر التشهد (ثم قام عاد و سلم۔۔۔ و سجد للسهو)۔۔۔ لنقصان فرضه بتأخير السلام
ترجمہ: اور اگر مثلاً چوتھی رکعت میں تشہد کی مقدار قعدہ اخیرہ کرلیا پھر کھڑا ہوگیا تو واپس آئے اور سلام پھیرے۔ اور سلام کی تاخیر کی وجہ سے فرض کے نقصان کے لیے سجدہ سہو کرے۔ رد المحتار میں علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں
(قوله عاد و سلم) أي عاد للجلوس لما مر أن ما دون الركعة محل للرفض. و فيه إشارة إلى أنه لا يعيد التشهد، و به صرح في البحر
ترجمہ:(ماتن کا قول: لوٹے اور سلام پھیرے) یعنی بیٹھنے کے لئے واپس ہوگا کیونکہ گزرچکا ہے کہ رکعت سے کم، چھوڑنے کے قابل ہے اور اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب لوٹے گا تو دوبارہ تشہد نہیں پڑھے گا اور اسی کی بحر میں صراحت ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 87، دار الفکر، بیروت)
اس کی علت بیان کرتے ہوئے جد الممتار میں سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :
(عاد و سلم):من دون تشهد، لأن القيام الزائد لا يرفع التشهد الصحيح
ترجمہ: واپس لوٹے گا اور سلام پھیرے گا، تشہد نہیں پڑھے گا، کیونکہ زائد قیام صحیح تشہد کو ختم نہیں کرتا۔ (جد الممتار، جلد 3، صفحہ 540، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
سجدہ سہو کے طریقے کے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے
و كيفيته أن يكبر بعد سلامه الأول و يخر ساجدا و يسبح في سجوده ثم يفعل ثانيا كذلك ثم يتشهد ثانيا ثم يسلم، كذا في المحيط
ترجمہ: سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد تکبیر کہتا ہوا سجدے میں جائے اور سجدے کی تسبیح پڑھے، پھر یونہی دوسرا سجدے کرے پھر دوبارہ تشہد پڑھ کر سلام پھیرے، اسی طرح محیط میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 125، دار الفکر، بیروت)
سجدہ سہو نہ کرنے کی صورت میں نماز واجب الاعادہ ہوتی ہے ،چنانچہ در مختار میں ہے
و لهاواجبات لاتفسد بتركها و تعاد وجوبا في العمد و السھو ان لم یسجد لہ
ترجمہ: نماز کے کچھ واجبات ہیں نماز ان کے ترک سے فاسد نہیں ہوتی، لیکن قصدا ترک کرنے سے یا سہواً (بھولے) سے ترک کرنے کے بعد سجدہ سہو نہ کرنے کی صورت میں اس نماز کا دہرانا واجب ہوتا ہے۔ (الدر المختار، صفحہ 64، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
رد المحتار میں ہے
ان من ترک واجبا من واجباتھا او ارتکب مکروھا تحریما لزمہ وجوبا ان یعید فی الوقت
ترجمہ: اگر نماز کے واجبات میں سے کسی واجب کو چھوڑا یا کسی مکروہ تحریمی فعل کا ارتکاب کیا تو اسے وقت کے اندر نماز کو لوٹانا واجب ہے۔ وقت کے بعد بھی اعادہ ضروری ہے، یہی قول محقق و راجح ہے، چنانچہ رد المحتار میں ہے
یکون المرجح وجوب الاعادۃ فی الوقت و بعدہ
ترجمہ: راجح یہی ہے کہ وقت کے اندر اور وقت گزر جانے کے بعد دونوصورتوں میں اعادہ واجب ہے۔ (رد المحتار، جلد 2، صفحہ 64، 65، دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4104
تاریخ اجراء: 12 صفر المظفر 1447ھ / 07 اگست 2025ء