امام کے پیچھے قراءت کرنا کیسا؟

نماز میں امام کے پیچھے قراءت کرنے کا حکم ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مقتدی کا امام کے پیچھے قراءت کرنے کا کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔ نیز  اگر مقتدی امام کے پیچھے قراء ت کرلے تو کیا حکم ہے، کیا اس سے مقتدی کی نماز میں کوئی خرابی لازم آئے گی یا نہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مذہب ِ حنفی میں امام کے پیچھے مقتدی کا خاموش کھڑا رہنا واجب ہے اور  مطلقاً  سری اور جہری نمازوں میں سے کسی میں بھی سورہ فاتحہ یا کسی اور سورت کی قراءت کرنا، مکروہِ تحریمی یعنی ناجائز گناہ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے قرآن پاک کی قراءت کے و قت خاموش رہنے اور اسے سننے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، نیز حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا کہ جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کی قراءت، مقتدی کی بھی قراء ت ہے، ایک اور حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا کہ امام اس لیے بنایا جاتاہے کہ اس کی پیروی کی جائے، لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو، لہذا مقتدی ہر حال میں  امام کے پیچھے  خاموش ہی  کھڑا رہے گا اور کچھ بھی قراءت نہیں کرے گا۔ اگر مقتدی نے امام کے پیچھے سری و جہری نمازوں میں سے کسی بھی نماز میں سورہ فاتحہ یا کسی سورت کی تلاوت کرلی، تو اگر بھول کر قراءت کی، تو مقتدی کی نماز  بلا شبہ درست ہوجائے گی، اور مقتدی پر اس کی وجہ سے سجد ہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا، ہاں  البتہ اگر مقتدی نے جان بوجھ کر یا مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ یا کسی سورت کی تلاوت کی، تو چاہے سری نماز میں کی یا جہری نماز میں، بہر صورت  اس کے سبب مقتدی کی نماز واجب الاعادہ ہوجائے گی یعنی مقتدی پر اُس نماز کو دوہرانا واجب ہوگا، اور جان بوجھ کر قراءت کرنے، یونہی مسئلہ سے ناواقفی کے سبب قراءت کرنے کے سبب  گنہگار بھی ہوگا، جس سے توبہ کرنا لازم ہوگا۔

قراءت قرآن کے وقت خاموش رہنےا ور تلاوت کو غور سے سننے سے متعلق فرمان باری تعالی ہے:

﴿وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوۡا لَہٗ وَاَنۡصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾

ترجمہ کنز العرفان:   اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (پارہ9، الاعراف:  204)

  امام کے پیچھے قراءت کے وقت خاموش رہنے سے متعلق، سنن نسائی کی حدیث پاک میں ہے:

’’عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا“

 ترجمہ:  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:   امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہواور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔ (سنن نسائی، جلد2، تأويل قوله عز وجل:   وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له، صفحہ141، رقم الحدیث:  921، مطبوعہ حلب)

امام کی قراءت، مقتدی کیلئے بھی قراءت ہے، چنانچہ سننِ ابنِ ماجہ کی حدیث مبارکہ میں ہے:

’’عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان له إمام، فقراءة الامام له قراءة “

 ترجمہ:  حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول ا صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کا کوئی امام ہو، تو امام کی قراءت اس کی بھی قراءت ہے۔ (سنن ابن ماجة، جلد1، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا، صفحہ276، رقم الحدیث:  850، دار إحياء الكتب العربية)

  جامع ترمذی کی حدیث پاک میں ہے، حضرت جابررضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

”من صلیٰ رکعۃ لم یقرأفیھا بام القرآن فلم یصل الا أن یکون وراءالامام“

 ترجمہ:   جس نے کسی رکعت میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو گویا اس نے نماز نہیں پڑھی مگر جبکہ وہ امام کے پیچھے ہو(تو اس پر فاتحہ کی قراءت لازم نہیں)۔ (سنن ترمذی، جلد1، باب ماجاء فی ترک القراءۃ خلف الامام، صفحہ413، رقم الحدیث: 313، دار الغرب الإسلامي، بيروت)

 مقتدی کا امام کے پیچھے قراءت کرنا مکروہ تحریمی ناجائز و گناہ ہے، چنانچہ نورا لایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے:

 ’’(ولا يقرأ المؤتم بل يستمع )حال جهر الإمام (وينصت) حال إسراره لقوله تعالى:

{وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا}

 وقال صلى الله عليه وسلم:   يكفيك قراءة الإمام جهر أم خافت۔ واتفق الإمام الأعظم وأصحابه والإمام مالك والإمام أحمد بن حنبل على صحة صلاة المأموم من غير قراءته شيئا۔(و إن قرأ) المأموم الفاتحة وغيرها (كره) ذلك (تحريما)للنهي‘‘

ترجمہ:  اور مقتدی امام کے پیچھے قراءت نہیں کرے گا، بلکہ امام کے بلند آواز سے پڑھنے کی صورت میں اس کی قراءت سنے گا، اور آہستہ آواز سے پڑھنے کی صورت میں خاموش رہے گا، اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  کہ تجھے امام کی قراءت کافی ہے، وہ بلند آواز سے پڑھےیا آہستہ، اور امام اعظم اور ان کے اصحاب اور امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہما  سب کے سب نے مقتدی کے کچھ بھی قراءت نہ کرنے پر اس کی  نماز کے صحیح ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ (بہرحال)اگر مقتدی نے امام کے پیچھے فاتحہ اور اس کے علاوہ سورت کی قراءت کی تو حدیث پاک میں اس سے ممانعت کی وجہ سے یہ عمل مکروہ تحریمی ہوگا۔ (نور الایضاح مع مراقی الفلاح، صفحہ86، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

مقتدی امام کے پیچھے سری و جہری کسی بھی نماز میں مطلقاً قراءت نہیں کرے گا، نہ سورہ فاتحہ کی اور نہ کسی دوسری سورت کی، چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے :

’’(والمؤتم لا يقرأ مطلقا) ولا الفاتحة في السرية اتفاقا، وما نسب لمحمد ضعيف كما بسطه الكمال (فإن قرأ كره تحريما) وتصح في الأصح‘‘

ترجمہ:  مقتدی بالکل قراء ت نہیں کرے گا، اور بالاتفاق سری نماز میں فاتحہ بھی نہیں پڑھے گا، اور امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف جو قول منسوب ہے (کہ سری نماز میں فاتحہ کی قراءت مستحب ہے)تو  وہ ضعیف ہے۔لہذا اگر مقتدی نے قراءت کی تو اس کایہ عمل مکروہ تحریمی ہے لیکن اَصح قول کے مطابق نماز صحیح ہوگی۔   (تنویر الابصار مع در مختار، جلد2، صفحہ327، 326، دارالمعرفۃ، بیروت)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’مذہبِ حنفیہ دربارہ قرأتِ مقتدی، عدمِ اباحت و کراہتِ تحریمیہ ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد6، صفحہ240، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

امام کے پیچھے مقتدی نے قراءت کی تو اگر جان بوجھ کر کی تو نماز واجب الاعادہ ہوگی، اور بھول کر کی تو نماز درست ہوجائے گی، سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا، چنانچہ نماز کے واجبات کے بیان میں علامہ علاء الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:  ’’وانصات المقتدی‘‘ ترجمہ:  اور مقتدی کا خاموش رہنا  واجب ہے۔

در مختار کی اس عبارت کے تحت علامہ احمد طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ارشاد فرماتے ہیں: 

’’فلو لم ینصت وقرأ یجب علیہ اعادۃ الصلاۃ، ولا یتأتی فی حقہ السھو ان قرأ سھوا؛ لانہ لا سھو علی المقتدی، حلبی‘‘

ترجمہ:  لہذا اگر مقتدی خاموش نہ رہا اور اس نے قراءت کی، تو اس پر نماز کو دوہرانا واجب ہے، اور اگر اس نے بھول کر قراءت کرلی ہو تو اس کے حق میں سہو کا حکم نہیں ہوگا، کیونکہ مقتدی پر اپنے سہو سے سجدہ سہو لازم  نہیں، حلبی۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد2، صفحہ147، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ در مختار کی عبارت کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:

’’فلو قرأ خلف إمامه كره تحريما ولا تفسد في الأصح كما سيأتي قبيل باب الإمامة ولا يلزمه سجود سهو لو قرأ سهوا لأنه لا سهو على المقتدي، وهل يلزم المتعمد الإعادة؟ جزم ح وتبعه ط بوجوبها‘‘

 ترجمہ: لہذا اگر مقتدی نے امام کے پیچھے قراءت کی، تو یہ مکروہ تحریمی ہوگا، اور اصح قول کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوگی، جیسا کہ عنقریب باب الامامۃ سے پہلے آئے گا، اور مقتدی نے اگر بھول کر قراءت کی تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا، کیونکہ مقتدی پر اپنے بھولنے کے سبب سجدہ سہو لازم نہیں، اور کیا جان بوجھ کر قراءت کرنے والے پر اعادہ لازم ہوگا؟ تو ح( یعنی امام حلبی) نے اعادے کے واجب ہونے پر جزم فرمایا ہے اور ط(یعنی علامہ طحطاوی )نے اعادے کے واجب ہونے میں ان کی اتباع کی ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد2، باب صفۃ الصلاۃ، صفحہ202، دار المعرفۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  FAM-522

تاریخ اجراء:  20 صفر المظفر1446ھ/26 اگست2024ء